عمران خان کے ہاں پندرہ جون1992کو ایک خوبصورت بچی پیدا ہوئی جن کی والدہ کا نام اینالوٹسیا وائٹ عرف سیتاوائٹ تھا جو مسلم قانون کے مطابق بنا شادی بچہ پیدا ہوا ہے جبکہ کامن لاء کے مطابق اگر آپس میں تصور کیا جائے کہ ہم شادی شدہ ہیں تو یہ شادی کہلاتی ہے۔ جس کے لئے کسی رجسٹریشن عدالت یا نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ جس طرح جنگل بیابان اور ریگستان میں ایک مرد اور عورت خود شادی کرسکتے ہیں جس کے لیے کسی گواہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ سیتا وائٹ نے کیلیفورنیا کی عدالت میں ایک مقدمہ درج کرایا کہ میری بچی ٹیریان کے والد عمران خان ہیں جو پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ عدالت نے دونوں پارٹیوں کو نوٹسز بھیجے جس میں عمران خان قصدر غیر حاضر رہے جس کے بعد عدالت نے تمام شواہد اور شہادتوں کے بعد سیتاوائٹ کی بچی ٹیریان جاد کے والد عمران خان کو قرار دیا جس میں یہ بھی حکم دیا کہ اگر سیتا وائٹ چائلڈ سپورٹ چاہتی ہیں تو عدالت یہ بھی حکم جاری کرسکتی ہے۔ جو انہوں نے منع کیا کہ مجھے صرف اور صرف بچی کی ولدیت چاہئے چائلڈ سپورٹ نہیں چاہئے۔ اگر سیتا وائٹ چائلڈ سپورٹ کا بھی مطالبہ کردیتی تو عمران خان چائلڈ سپورٹ نہ دینے پر امریکہ آنے پر گرفتار ہوجاتے جس میں چائلڈ سپورٹ نہ دینا سخت جرم تصور ہوتا ہے۔ جب2004میں ٹیریان کی والدہ سیتا وائٹ کا انتقال ہوا تو تو ان کی خالہ کیرولینا وائٹ نے عدالت سے رجوع کیا کہ13سالہ ٹیریان میری بھانجی ہے جن کی کسٹوڈی مجھے دی جائے تو عدالت نے کہا کہ ٹیریان کی کسٹوڈی صرف اور صرف ان کے والد عمران خان یا پھر ان کی غیر حاضری میں ان کی کسی بیوی کو دی جاسکتی ہے جس کے بعد گیرولینا وائٹ نے عمران خان سے رابطہ قائم کیا کہ آپ عدالت میں حلف نامہ دائر کریں کہ میں بطور والد ٹیریان جاد کی حوالگی ان کی خالہ کے حوالے کرتا ہوں جس پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کی بیوی جمائما گولڈ سمتھ نے کئی حلف دائر کردیا کہ مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جس کے بعد عدالت نے ٹیریان کی کسٹوڈی ان کی خالہ کو دے دی۔ یہ وہ کیس ہے جو پاکستان کی عدالتوں میں مختلف وقتوں میں دائر ہوتا رہا ہے جس پر عدالتیں نہ جانے کیوں اور کس کے حکم پر حیلوں بہانوں سے ٹال رہی ہیں جبکہ مقدمے یہ ہے کہ عمران خان نے بطور پارلیمنٹرین اپنی امیدواری میں اپنے دو بچوں کا نام درج کیا ہے۔ تیسرے بچے کا نام درج نہیں کیا ہوا ہے۔ جس پر الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں درخواستیں دائر ہیں کہ عمران خان نے تیسرے بچے کا نام نہ لکھ کر جھوٹ چھپایا جس پر انہیں نااہل قرار دیا جائے۔ چونکہ عمران خان سمجھتا ہے کہ اگر میں اقرار کر لوں کہ ٹیریان میری بیٹی ہے تو وہ جھوٹا ثابت ہوگا جس پر وہ نااہل ہوجائے گا جبکہ پاکستان کے قانون کے مطابق بنا شادی بچہ پیدا کرنا بھی زنا کاری میں آتا ہے جس کی سزا سنگساری ہے جس کا عدالت کے فیصلے کے بعد مطالبہ بڑھ جائے گا اس لیے خان صاحب اپنی سگی بیٹی کی ولدیت سے ابھی تک انکاری ہے۔ حالانکہ کیلیفورنیا کی عدالت میں اپنے حلف نامے میں وہ اقرار ہدایت کرچکے ہیں۔ بہرکیف مغربی دنیا جہاں بنا شادی اولاد پیدا کرتی کوئی جرم نہیں ہے مگر جب سیاستدانوں کا معاملہ کردار اور اعمال کا آتا ہے تو امریکہ جیسے ملک میں بڑے بڑے خرم خان جسے مقدمات میں اپنے سیاسی کیریئر تباہ کرلیتے ہیں۔ جس میں صدر، گورنرز، پارلیمنٹرین اور اہلکار شامل ہیں۔ کہ آج سول رائٹس موومنٹ کے صفحہ اول کے لیڈر جیسی جیکسن اپنی بنا شادی اولاد کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ بہرحال عمران خان کا اپنی پیاری بیٹی ٹیرن کا نام الیکشن کمیشن میں درج نہ کرنے پر نااہل ہو سکتے ہیں۔ جو ممکن نہیں ہے کیونکہ موصوف ابھی بھی جنرلوں اور ججوں کے لاڈلے میں جن کی جنرل اور جج صاحبان ہر طرح کی مدد کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ٹیرن کیس فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ خرد برد یا پھرلی آر ٹی، مالم جبہ، بلین ٹری، رنگ روڈ پنکی، گوگی، گوگا ر شوت کے بڑے بڑے کرپشن کے مقدمات میں جن کے گواہ موجودہ آرمی چیف جنرل حافظ عاصم میں جنہوں نے بطور آئی ایس آئی سربراہ عمران خان سے شکایت کی تھی کہ آپ کے گھر میں بہت بڑی کرپشن ہو رہی ہے۔ جس کی پاداش میں جنرل عاصم کا تبادلہ کردیا گیا لہٰذا عدالتوں کو حسب عادت عمران بچائو تحریک کی بجائے انصاف کا ساتھ دینا ہوگا ورنہ وہ وقت دور نہیں ہے جب عوام کا ہاتھ آپ کے گریبان تک پہنچ جائے۔
٭٭٭٭