صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انتخابات کی تاریخ کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے۔صدر کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو یہ دوسرا خط ہے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کی بے حسی پر ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے۔صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو مشاورت کے لیے 20فروری کو مدعو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ الیکشن کمیشن آئینی فرائض کا احساس کرے گا۔صدر مملکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے افسوسناک رویہ سے انہیں انتہائی مایوسی ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے صدر کی جانب سے طلب کردہ اجلاس میں شرکت کا عندیہ دیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کے خط کے جواب میں اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، جو آئین اور قانون پر عمل کرتا ہے، صدر مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کے مابین مشاورت کا عمل آئین کی شق 57(1) کے تحت ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کی سیاسی و معاشی حالت گھنٹے گھنٹے بعد پہلے سے بری ہوتی جا رہی ہے۔ایسی صورتحال میں نئے جھگڑوں کے امکانات ختم کرنے اور پہلے سے موجود تنازعات کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ تمام ادارے اور شخصیات آئین کے سامنے اپنی ضد انا اور مفادات کو سرنڈر کر دیں۔ایسا نہ کرنے کا نتیجہ گزشتہ 10ماہ کے دوران سب نے دیکھ لیا ہے۔ایسا اب بھی نہ کیا گیا تو موجودہ حکومت اپوزیشن اور ادارے آنیوالی تباہی کے ذمہ دار قرار پائیں گے۔ قومی اسمبلی میں اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد سے عمران خاں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔پی ڈی ایم رہنما ان سے کہتے رہے ہیں کہ وہ اگر انتخابات چاہتے ہیں تو خیبر پختونخواہ اور پنجاب اسمبلی کو تحلیل کر کے دکھائیں۔دو صوبوں میں اپنی حکومتوں کا خاتمہ کرنا عمران خاں کے لئے آسان فیصلہ نہیں رہا ہو گا۔ان کے بعض ساتھی انہیں بتا رہے تھے کہ حکومت پی ٹی آئی کے خلاف پکڑ دھکڑ اور کارکنوں پر تشدد کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہے۔ان خدشات کے باوجود تحریک انصاف نے دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے نوٹیفکیشن پر متعلقہ گورنر حضرات نے دستخط نہ کئے۔یہ وہی رویہ تھا جس کی شکایت پی ڈی ایم تحریک انصاف کے گورنر عمر سرفراز چیمہ کے متعلق کرتی رہی ہے۔گورنر صاحبان آئین کے تحت اس صورتحال میں انتخابات کی تاریخ طے کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن کو 90روز کے اندر انتخابات کرانے کی ہدایت کرتے ہیں۔یاد رہے کہ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ابتدائی استعفوں کے وقت حکومت 90روز میں ضمنی انتخابات کرانے کی باتیں کرتی رہی ہے۔درپیش صورتحال میں گورنر حضرات کا موقف ہے کہ چونکہ اسمبلی تحلیل کے نوٹیفکیشن پر ان کے دستخط نہیں اس لئے وہ انتخابات کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں۔ایسی صورتحال میں موشگافیاں پیدا کر کے حکومت انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔یہ شکوک اس وقت تقویت پکڑے نظر آتے ہیں جب حکومتی شخصیات انتخابات کے التوا کی وکالت کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے کردار کے حوالے سے کئی تنازعات پچھلے چار سال میں دیکھے گئے ہیں۔پہلے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام لگاتی رہیں۔کئی بار ان جماعتوں کے رہنما وفود کی صورت میں چیف الیکشن کمشنر سے ملتے رہے ہیں۔پی ڈی ایم خاص طور پر فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے طرز عمل کو مشکوک قرار دیتی رہی۔اب حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے مخالف رہنمائوں اور جماعتوں کے فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کیس آگے نہیں بڑ پائے۔تحریک انصاف اس اس دوران الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے طرز عمل پر مسلسل اعتراض کرتی آ رہی ہے۔ملک کی سب سے بڑی جماعت کے مطالبات پر جب ٹال مٹلو کا رویہ دکھائی دے گا تو دانشمندانہ سوچ کے حامل حلقے سب سے پہلے آئین سے رہنمائی لیں گے اور پھر ان اسباب کا جائزہ لیا جائے گا جو ملک میں ہمہ جہتی بحران شدید کرنے کی وجہ بن رہے ہیں،بلا شبہ تحریک انصاف کی جانب سے عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ نظر انداز ہونا ملک کے مسائل بڑھا رہا ہے۔آئینی اختیارات کی تقسیم کا نظام اس لئے وضع کرتا ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر ذمہ داریاں ادا کر سکے۔ عمران خاں نے انتخابات کا مطالبہ منوانے کے لئے اگلا قدم بڑھا دیا ہے۔وہ کہہ رہے ہیں کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ ہونا آئین شکنی ہے۔عمران خاں کی جانب سے جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا گیا ہے۔تحریک کے انصاف کے کارکن پہلے ہی سڑکوں پر ہیں۔جیل بھرنے کے لئے کارکن اگر باہر نکل آتے ہیں تو پولیس اور دیگر فورسز کے کتنے اہلکار انہیں روک سکیں گے؟ پی ڈی ایم حکومت انتخابات سے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے، قومی اسمبلی کی 40نشستوں کے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان، اس کی مثال ہے۔پی ڈی ایم کے دانشمند جاتے ہیں کہ انہوں نے جس طرح سے اقتدار لیا ہے اس نے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔انتخابات کے ذریعے عوام کا تازہ مینڈیٹ سامنے آ سکتا ہے۔نئی منتخب قیادت اداروں کے ساتھ ازسرنو تعلقات بہتر بنا سکتی ہے۔مالیاتی اور ترقیاتی پالیسیوں میں بہتری آ سکتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ عالمی سرمایہ کاروں کو ایک قابل بھروسہ حکومت کے ساتھ معاملات کرنے میں آسانی ہو گی۔ضد ہٹ دھرمی اور ذاتی اعتراض سے ہٹ کر سوچنا ہی سب کے مفاد میں ہے۔چیف الیکشن کمشنر کو اپنے طور پر درپیش بحران سے نکلنے کے لئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
٭٭٭