اپنے گزشتہ کالم کا عنوان ہم نے ”یہ مرحلہ طے ہوا، آگے کیا”بلا سبب نہیں دیا تھا۔اگرچہ بہت سے قارئین نے ہم سے یہ سوال اٹھایا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی اکثریت سے کامیابی کے بعد”آگے کیا” کا معمہ تو حل ہونا ہے کہ پختونخواہ، جی بی، کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کے بعد سب سے بڑے12کروڑ سے زائد آبادی والے صوبے میں حکومت سازی کے بعد تو پی ڈی ایم خصوصاً نواز لیگ کی وفاق میں حکومت کا کوئی جواز غیر فطری ہوگا۔آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ اقتدار کی بھوکی نواز لیگ اقتدار سے الگ رہ کر کبھی چین سے نہیں بیٹھتی اور ان حدوں تک جاتی ہے جہاں نتیجہ میں اسے جلاوطنی بھی بھگتنا پڑتی ہے اور نااہلی بھی مقدر بنتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی سرشت سے مجبور حق حکمرانی(جایا بے جا) کے لئے ہر ہتھکنڈہ اختیار کرتی ہے۔سپریم کورٹ پر حملہ، یکطرفہ طور پر آرمی چیف کا تقرر اور نااہلی وشکست پر اداروں پر تہمت طرازی اور محاذ آرائی کے اقدامات بہت پرانی بات نہیں ہے۔
22تاریخ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں جو تماشہ ہوا اور چوہدری شجاعت کے خط کو بنیاد بنا کر ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے186ووٹ حاصل کرنے والے پرویزالٰہی کو دوڑ سے باہر کرکے179ووٹ لینے والے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ قرار دیا۔اسکی تفصیل سے قارئین بخوبی آگاہ ہیں۔اس عجیب تماشے کے ردعمل میں پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ جانا، پی ڈی ایم اور سپریم کورٹ بار کے6صدور کا فل کورٹ سماعت کا مطالبہ اور سپریم کورٹ کی جانب سے اس مطالبے یا استدعا کو مسترد کیا جانا بھی آپ کے علم میں ہے۔حیرت کی بات یہ ہوئی کہ عدالت عظمیٰ کے کیس کا فیصلہ آنے تک حمزہ شہباز کو روٹین معاملات چلانے کی آڑ میں حمزہ نے اتوار کے روز ہی53وزراء اور مشیران ومعاونین خصوصی کی فوج ظفر کے حلف اُٹھوا دیئے۔حیرت اس بات پر بھی ہے کہ سنجیدہ ومتین صاحب فراست گورنر پنجاب نے سوچے بغیر کہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں متنازعہ ہے حلف لے لئے۔بہرحال فیصلہ ہوگیا پرویزالٰہی وزیراعلیٰ بن گئے، گورنر نے حلف نہ لیا تو صدر مملکت نے لیا۔ایک دن کا وزیراعلیٰ صدمے میں ہے اور حکومتی اتحاد ماتم کر رہا ہے۔
قارئین کے علم کے لئے، دوران سماعت پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے شکوہ کیا کہ پیپلزپارٹی نے وزیر اعلیٰ الیکشن میں ووٹ دیا ہے لیکن فریق بننے کی درخواست رجسٹرار آفس نے واپس کردی ہے۔اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا مئوقف بھی سن لیں گے آپ نشست پر بیٹھیں کوئی آپ کی سیٹ ہی نہ لے لے۔فاروق نائیک بولے کرسی آنی جانی چیز ہے انسان کو اپنے پائوں پر پکا رہنا چاہئے۔چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے ایسی باتیں کرنے والے کی کرسی اکثر چلی جایا کرتی ہے۔کہنے کو تو یہ ایک دلچسپ مکالمہ تھا تاہم کرسی کے حوالے سے یہ انتہائی گہرائی وگہرائی کی حامل حقیقت ہے اقتدار یا کرسی کے حصول اور برقراری کے لئے مضبوط ومربوط بنیاد یادوسرے الفاظ میں پائوں کی مضبوطی لازم ہے۔سیاست میں یہ مدلل واضح نکتہ یا بیانیہ کی صورت ہوتی ہے۔اور کامیابی کی صورت کا باعث ہوتی ہے موجودہ سیاسی صورتحال اسکی بہترین مثال ہے کہ اقتدار سے محروم کئے جانے کے باوجود عمران خان کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے اور سیاست کے نہایت شاطر وتجربہ کار سیاسی اتحاد کو حکومت میں ہونے کے باوجود بھی ہر محاذ پر یزیمت کا سامنا ہے۔
ہم نے یونہی”آگے کیا”نہیں لکھ دیا تھا، آنے والی صورتحال کی پیش آمدہ تشویشناک کیفیت اور اپنے احساس کے تناظر میں یہ ہماری عرضداشت شاید غلط نہ تھی۔حالیہ فیصلے کے بعد حکومتی اتحاد کا عدالتی بائیکاٹ محض پنجاب کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی وجہ سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پیش نظر نیب اور ای سی ایل ترامیم کے وہ ریفرنسز بھی ہیں جو اسی بینچ کے زیرسماعت ہیں اور حکومتی اتحاد کو خوف ہے کہ ان کا فیصلہ بھی اسکے خلاف آئے گا۔ اسی خوف اور اندیشے کے پیش نظر حکومتی اتحاد بالخصوص نواز لیگ نے محاذ آرائی کا اعلان کردیا ہے۔عمران اور پی ٹی آئی کو دھمکی کہ تم اگر تھپڑ مارو گے تو ہم مکا ماریں گے اسی رحجان کی نشاندہی ہے۔دوسری جانب نواز لیگ اس کوشش میں ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کا فیصلہ جلد ازجلد آئے۔ایسی صورتحال میں کیا پی ٹی آئی اور کپتان اپنا ردعمل نہیں دیں گے جنہیں اس وقت عوام کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔محاذ آرائی اور سیاسی بحران کی صورت میں بالخصوص جب ملک شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے، ریاستی ادارے اور ذمہ داران خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے۔ویسے بھی صدر مملکت کا بیان کہ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا نئے انتخابات کے لئے اپنا کردار ادا کریں، بے معنی نہیں ہے۔دوسری جانب پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب میں چوہدری شجاعت کو ماموں بنانے والے زرداری بوجوہ دبئی پہنچ کر اپنے ڈانڈے ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔
ان تمام حالات میں ہمارا اندازہ ہے کہ معاملہ محض پنجاب تک ہی محدود نہیں بلکہ ساری بساط سمیٹ دیئے جانے کی جانب جارہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کوئی ایسا اقدام کرنا نہیں چاہے گی جس سے کوئی منفی تاثر ابھرے،249ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں دیگر امور کے ساتھ داخلی صورتحال پر غور یقیناً اہم نظر آتا ہے اور امکان یہی نظر آتا ہے کہ موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر سافٹ انٹروینشن(soft intervention)کے ذریعے انتخابات کرا دیئے جائیں۔یہی ایک صورت وطن عزیز کو انار کی اور انتشار سے بچانے کا ممکنہ راستہ ہے۔حکومتی اتحاد کے پاس اب کوئی راستہ نظر نہیں آتا سوائے اپیل میں جانے کے اور اپیل بھی بادی النظر میں موثر ہوتی نظر نہیں آتی۔نواز لیگ اور اسکے حواریوں نے ہر دقیقہ آزما کر دیکھ لیا لیکن بقول شاعر الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔
٭٭٭٭