گزشتہ ہفتہ پاکستانی سیاست اپوزیشن بمقابلہ حکومت کے درمیان ذہنی اور سیاسی نفسیاتی دائو پیچ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے ہی عبارت رہا۔ حکومت کے جانے اور تحریک عدم اعتماد کا اپوزیشن کا منترا جاری و ساری رہا، حکومت کی جانب سے اس منترے کا توڑ اور حکومت کی مضبوطی کے دعوے کے سلسلے جاری رہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اپوزیشن اپنے تمام تر دعوئوں اور نمبر گیم کے پورے کئے جانے اپنے پتّے شو کرنے سے قطعی عاری نظر آتی ہے۔ اپوزیشن کے بڑوں کے درمیان ملاقاتیں ہو رہی ہیں، حکومتی اتحادیوں اور جہانگیر ترین سے رابطے بھی ہیں لیکن واضح صورتحال سے آگاہی دینے کیلئے اپوزیشن تیار نظر نہیں آتی، اس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ یا تو یہ سارا شور شرابا محض مستقبل قریب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن کا عوام کو اپنے وجود کا احساس دلانے اور تحریک انصاف کی حکومت کے امیج پر اثر انداز ہونے کیلئے ہے یا پھر حکومت سازوں کے اشارہ ابرو پر حالات کے ارتقائی عمل کو مخفی رکھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف تبدیلی سرکار اور کپتان کے روئیے اور اقدامات بھی ”ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا”۔ کی تصویر پیش کر رہے ہیں، اپوزیشن کے دعوئوں اور ہرزہ سرائی کے رد کیلئے عوام دوست اقدامات کے برعکس ایسے اقدامات اور بیانیئے اپنائے جا رہے ہیں جن سے اپوزیشن متاثر ہو یا نہ ہو عوام، میڈیا اور دیگر شعبے اور طبقات ضرور متاثر ہو رہے ہیں۔ پیٹرول پر یکمشت 12 روپے فی لیٹر کا اضافہ، سینئر صحافی محسن بیگ کی ایف آئی اے کے ذریعے گرفتاری، الیکشن قوانین میں ترمیم اور فیکا ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس وہ اقدامات ہیں جو حکومت کی مشکلات میں اضافے کا سبب ہی بن سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے عوامی رابطے کا قصد کیا اور منڈی بہائو الدین میں پہلا خطاب کیا تو بجائے اپنی حکومت کے عوامی فلاح کے اقدامات، معاشی ترقی کے اثرات اور حکومتی کارکردگی کے اظہار، اپنا سارا زور خطابت زرداریوں، شریفوں کی کرپشن، لُوٹ مار اور جب تک زندہ ہوں ان کو چھوڑوں گا نہیں پر لگا دیا۔ مانا کہ یہ منترہ ان کی پالیسی یا کامیابی کا اولین نکتہ ہے لیکن ایک عام آدمی کی فلاح اور بہتر حالات سے اس کا کوئی سروکار نہیں۔ آئندہ انتخابات اور بلدیاتی انتخابی معرکے میں کامیابی کیلئے عوامی بہتری کا عندیہ اولین ترجیح بنتا ہے۔ محسن بیگ نے جو کچھ کیا، کوئی بھی ذی شعور ارو با ضمیر شخص اس کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن جو طریقہ اپنایا گیا اس کی وجہ سے یہ معاملہ حکومت مخالفت کا باعث بنا نہ صرف میڈیا کیلئے بلکہ چیف جسٹس اسلام آباد بھی اس پر برہم ہیں۔ حکومتی مشکلات میں اضافہ کا سبب تو پیکا آرڈیننس اور الیکشن ترامیم بھی ہیں کہ ان کے باعث اپوزیشن تو اپنی جگہ میڈیا، سوشل میڈیا اور الیکشن کمیشن سے پنگا لے لیا گیا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ کپتان اپنے مزاج کے مطابق چومکھی لڑنے کے مُوڈ میں ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گورننس کی خرابی، مہنگائی کے عدم تدارک، بد امنی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا اندازہ اس تازہ ترین واقعے سے لگائیں کہ سرگودھاکی ایک مغوی لڑکی کی بازیابی کیلئے پولیس نے جب کارروائی کی تو 151 لڑکیاں اور عورتیں سرگودھا سے بازیاب ہوئی ہیں، 21 لڑکیاں قحبہ خانوں سے برآمد ہوئیں۔ سوچیں کہ ”وطن عزیز کی بیٹیوں ”کی عزت و آبرو کس طرح دائو پر لگی ہوئی ہے۔ بد امنی، لاء اینڈ آرڈر کی بدترین صورتحال تو اس وقت زرداری و بلاول کے زیر نگیں صوبہ سندھ بالخصوص کراچی میں ہے۔ اسٹریٹ کرائمز، ڈکیتیاں عروج پر ہیں۔ سماء کا سینئر پروڈیوسر اور طارق متین کا چھوٹا بھائی ڈاکوئوں کے ہاتھوں ہلاک ہوا، روزانہ جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، پولیس بروقت پہنچتی نہیں ہے اور وزیراعلیٰ ان جرائم کے اضافے کو معاشی ناہمواری سے جوڑ کر وفاق کے سر پر ٹوپی پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ مہنگائی، غارت گری، بد انتظامی، گورننس کی خرابی ملک کے کسی بھی صوبے، کسی بھی شہر میں ہو عام آدمی کی سوچ اسے وفاقی حکومت کی نا اہلی و ناکامی تصور کرتی ہے گو کہ یہ حقیقت نہیں ہوتی۔
درج بالا سطور میں ہمارا وطن عزیز کی صورتحال کو بیان کرنا ہر گز حکومت یا وزیراعظم کی مخالفت میں نہیں بلکہ یہ احساس دلانا ہے، ان حقائق پر توجہ دلانا ہے جو موجودہ حکومت کو ناکام قرار دینے کے مخالفین کے عزائم میں کام آرہے ہیں۔ ہم اپنے گزشتہ کالم میں وضاحت سے کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے سیاسی مخالفین اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے لانگ مارچ اور عدم اعتماد کا شور برپا کئے ہوئے ہیں۔ انہیں حاصل کچھ بھی نہیں ہونا ہے۔ البتہ یہ حقیقت ضرور ہے کہ یہ عمران مخالفت محض اس لئے نہیں کہ اسے وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا جائے بلکہ اس کے پس پُشت موجودہ عالمی منظر نامے کے حوالے سے بھی بیرونی و داخلی محرکات کار فرما ہیں۔ عالمی اختیار کی موجودہ سیاسی و معاشی کشمکش میں دو بلاکس کی سرد جنگ میں پاکستان کو سینڈ وچ بنانے کے عزائم میں بیرونی سامراجی طاقتوں کے اغیار پاکستان میں صورتحال کو سنگین بنانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا 23 برس بعد روس کا دورہ (بالخصوص ایسے وقت جب روس اور امریکہ کے درمیان یو کرائن کے معاملے پر محاذ آرائی کی کیفیت ہے) امریکہ کو کھٹک رہا ہے، یورپی اور امریکہ کے دیگر حلیف ملک اس کی ہمنوائی میں ہیں، دوسری جانب افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے پاکستان سے ایشوز کے حوالے سے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں کہ کسی طرح پاکستان میں وفاداروں کو زمام اقتدار سونپنے کے بعد اپنے مقاصد کی تکمیل کی جائے۔ ان تمام تر حالات کو سامنے رکھتے ہوئے وقت کا تقاضہ ہے کہ نہ صرف امور مملکت میں تمام اداروں، شعبوں اور طبقات کو ساتھ لے کر عملی اقدامات کئے جائیں بلکہ ایسے فیصلوں، قوانین و تحاریک سے گریز کیا جائے جو حکومت اور متعلقہ فریقین کے درمیان اختلاف و تفریق کا باعث بنیں۔ کوئوں کے کوسوں ڈھول نہیں پھٹا کرتے ہیں لیکن کسی بھی معاملے میں ضد اور اپنی منشاء پر ڈٹے رہنا کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ وقت و حالات کے تقاضوں کے تحت اپنی انا سے ہٹنا کامیابی ہے۔ ہماری ذمہ داری احساس دلانا ہے، عمل کرنا آپ کا اختیار ہے۔
٭٭٭