گزشتہ ہفتہ وطن جن سنگین و ناخوشگوار واقعات سے دوچار رہا ہے اور وطن عزیز پر اس کے جو اثرات مرتب ہونے کے خدشات متوقع ہیں، ہم اپنے احساس کو اپنے ساتھی انور رومی کے دو مصرعوں ”اے خدا رحم کہ فریاد کُنا قلب حزیں، بے ثباتی کی کتھا کہتا رہے گا کب تک” سے معنون کر سکتے ہیں، یا پھر پنجابی کے اس مقولے کو اظہار کا ذریعہ بنا سکتے ہیں ”گل ودھ گئی اے مختاریا”۔ گزشتہ تین برسوں سے وطن عزیز کے دو فریقوں مقتدرہ اور عوام کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے رہنما کے درمیان نزاعی چُپقلش اب ذاتیات اور ذہنی عدم توازن کے الزامات تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی الزامات اور طعن و تشنیع کا سلسلہ اور مخالفانہ اقدامات و ہتھکنڈوں کا سلسلہ اب نو ریٹرن کی حدوں کو پہنچتا نظر آرہا ہے اور یا تم نہیں یا ہم نہیں کی نوید دے رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم نہیں یا تم نہیں کا یہ کھیل کوئی نیا نہیں، 1951ء سے جاری و ساری ہے۔ شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت اور خواجہ ناظم الدین کی سبکدوشی، غلام محمد کو گورنر جنرل بنانے سے لے کر اب تک مقتدرین کا یہ کھیل جاری ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے مارشل لاء کی چھتری استعمال ہوتی رہی، اب اس کو ہائبرڈ رجیم کا نام دیدیا گیا ہے۔ ہمارے متذکرہ بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر غور کیا جائے تو ہر دور میں سیاسی قوتیں اس کھیل میں نہ صرف حصہ بنتی رہی ہیں بلکہ انصاف کے محافظوں نے بھی اپنا ترازو طاقتوروں کی موافقت میں ہی جھکایا ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس سے پرویز مشرف کے مارشل لاء کو جائز قرار دینے کا فیصلہ اس حقیقت کے مظاہر ہیں۔ اب بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں، 26ویں ترمیم کی مدد سے عدلیہ کے ڈھانچے کو بے بس کر دیا گیا ہے اور منصفین کو بیورو کریسی کی کیٹیگری میں ماتحت بنا دیا گیا ہے، صاف ظاہر ہے کہ اس تماشے میں موجودہ حکومتی اشتراکیہ کا ماتحتی کردار حسب الحکم رہا ہے۔ ہمارے مندرجہ بالا سطور میں وطن عزیز کے واقعات و معاملات پر تبصرے کا نچوڑ یہی ہے کہ موجودہ حالات ماضی سے کچھ مختلف نہیں، ہر دور میں گزشتہ 7 دہائیوں سے زمام اختیار و اقتدار طاقتوروں کے زیر نگیں ہی رہی ہے، سیاسی قیادتیں محکوم اور طاقتوروں کے زیر اثر رہی ہیں اور اگر کسی رہنما نے محکومی سے نکلنے کا اظہار کیا ہے تو اسے نشانۂ بنا دیا گیا ہے، تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اب تک جو بھی سیاسی رہنما اقتدار میں آیا وہ مقتدرہ کے کاندھوں پر ہی چڑھ کر آیا اور ان کی مرضی سے ہی معزولی سے دوچار ہوا، دوچار برس کی بات نہیں یہ پون صدی کا قصہ ہے اور تاریخ کا سچاقصہ ہے۔
موجودہ صورتحال اور ماضی کے واقعات کا فرق یہ ہے کہ ماضی میں سوائے شہید بھٹو تمام سیاسی قائدین نے مصالحت و مذاکرات کا راستہ اپنایا اور اپنے سروائیول کا راستہ نکالا جبکہ خان اپنے عزم و استدلال پر ڈٹا ہوا ہے، عوام کی غیر متزلزل حمایت اور اپنے مستحکم ارادوں کے سبب وہ طاقتوروں کیساتھ کسی مصالحت پر آمادہ نظر نہیں آتا جبکہ دوسری جانب طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہوئے بلکہ کسی حد تک ذاتی اغماض کے سبب مقتدرہ سربراہ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ حکومتی و سیاسی حلقے بظاہر تو مذاکرات و مصالحت کی پیشکش کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اقدام ان کے اپنے اقتدار کے نہ رکنے کا سبب ہو سکتے ہیں۔ ان کیلئے موجودہ صورتحال ہی ان کی بقاء کی ضمانت ہے لیکن کیا وطن عزیز کی بقائ، خوشحالی، ترقی اور عوامی مفاد میں موجودہ حالات مثبت قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ کپتان کے ایکس اکائونٹ سے جاری بیانیے کے بعد ترجمان آئی ایس پی آر کی میڈیا کانفرنس، بعد ازاں پی ٹی آئی کے رد عمل کی وجہ سے ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جسے ہم نے کالم کے آغاز میں پوائنٹ آف نو ریٹرن قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان تین طرفہ یعنی بھارت، افغان رجیم اور دہشتگردی کے چیلنجز میں برسرپیکار ہے، معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، کاروباری ادارے اور انویسٹرز پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں اور بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے، نیز عالمی مالیاتی ادارے بشمول آئی ایم ایف تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، سیاسی و عسکری محاذ آرائی کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ قومی سلامتی کی آڑ میں قوم کے رہنمائوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیاجائے اور دوسری جانب قومی رہنما بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔ ملک وقوم کی ترقی، خوشحالی اور یکجہتی کا واحد ذریعہ یہی ہے۔ اک لڑی ٹوٹے تو ہو جاتی ہے زنجیر الگ!
٭٭٭

















