ملکانی کی کہانی (آپ بیتی)محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے یوں تو ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں جہاں عوام کو قانون اور پولیس سے شکایت رہتی ہے انکے جان و مال اور نقصان میں پولیس برابر کی شریک نظر آتی ہے مملکت پاک میں بالخصوص کراچی کا حال سب سے زیادہ بدتر ہے اسکی جو بھی وجوہات ہیں وہ طویل ہیں اس میں نہیں جاتے آج ایک ایسی لڑکی کی کہانی آپ بیتی سناتا ہوں جو اپنے نام ملکانی سے آن لائن جانی جاتی ہیں ایک اچھی وی لاگر ہیں اور معاشرے کی برائیوں کے ساتھ معاشرتی رویوں پر انکی گہری نظر ہے اب انکی کہانی انکی زبانی آپ مندرجہ زیل کالم میں پڑھیں پھر اس پر میرا مختصر تجزیہ آخری سطور میں لکھا ہوگا ۔ آج میں آپ لوگوں کو اپنی آپ بیتی سنانا چاہتی ہوں، کراچی کا یا یوں سمجھ لیں پورے پاکستان کا حال میری اس تحریر سے عیاں ہوگا__ بغور پڑھئیے گا___ میں ملکا نی اصل نام رخشندہ_خان یہ حلف اٹھاتی ہوں کہ میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ تحریر لکھ رہی ہوں، اور اس تحریر کا ہر حرف من و عن حقیقت پر مبنی ہے____ آج سے دو دن پہلے کی بات ہے، میں اپنے گھر سے کراچی کے علاقے ملیر اپنی والدہ کی طبیعت نا ساز ہونے کی وجہ سے انسے ملنے گئی۔ اور تقریبا دو گھنٹے انکے پاس بیٹھ کر مزاج پرسی کر کے واپسی اپنے گھر کیلئے نکلی___ امی کے گھر کے نزدیکی گلیوں سے نکل کر بڑے مین روڈ پر آ چکی تھی، اور احتیاط سے روڈ کراس کرنے لگی،میں چونکہ ایک سال سے زائد عرصے سے بائیک چلا رہی ہوں اور ایک ذمہ دار شہری کی طرح ٹریفک کے تمام قوانین پر عمل کرتے ہوئے بائیک رائڈ کرتی ہوں، اور جب بھی بائیک لے کر گھر سے نکلتی ہوں تو میرے پاس بائیک کے کاغذ، بائیک لائیسنس، اپنا شناختی کارڈ لازمی موجود ہوتا ہے، اور سر پر باقاعدہ ہیلمٹ بھی پہنتی ہوں،یہ سب تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ جو بات میں آپکو بتانا چاہتی ہوں، آپ اسے اچھے سے سمجھ سکیں ” تو میں بات کا سلسلہ آگے بڑھاتی ہوں، میں سڑک کراس کرنے لگی، مگر پہلے میں نے اچھی طرح روڈ کا جائزہ لیا کہ کوئی گاڑی میرے نزدیک نا ہو کہ میں روڈ کراس کرنے لگوں اور عجلت میں ٹکرا جاں_ میں نے دیکھا، روڈ پر دور گاڑیاں نظر آ رہی تھیں مجھے بظاہر کوئی خطرہ نہیں تھا،سو، اِنڈیگیٹر آن کر کے روڈ کراس کرنے لگی،روڈ کے کونے تک پہنچی ہی تھی کہ جو گاڑیاں مجھ سے بہت دور تھیں ،ان میں سے ایک رکشہ انتہائی تیز رفتاری سے مجھے آورٹیک کرنے کی کوشش میں مجھسے ٹکرا گیااور وہ ٹکر ایسی شدید تھی کہ میں سڑک پر گرتی چلی گئی،کچھ دیر بعد میرے اوسان بحال ہوئے، میں زمین سے جیسے تیسے اُٹھ کھڑی ہوئی جہاں پر ایکسیڈنٹ ہوا بلکل سامنے پولیس اسٹیشن واقع ہے،سامنے کچھ پولیس اہلکار کھڑے تھے جنہوں نے یہ پورا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور تیز رفتاری سے میری مدد کو پہنچ گئے،اسی وقت ایک ایڈووکیٹ بھی بس سے اتر رہی تھی، انہوں نے بھی یہ پورا واقعہ دیکھا تھا، اور موقع پر پہنچ کر مجھ سے میری خیریت پوچھنے لگیں،آپ کو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی، آر یو اوکے؟ میں نے درد کی شدت سے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، میں ٹھیک ہوں مگر کہنی میں اور ٹانگ میں شدید درد ہو رہا ہے،میری اسکوٹی بھی شدید ڈیمج ہو چکی تھی_ پولیس اہلکار رکشے والے کو پکڑے کھڑے تھے،مجھ سے ایڈوکیٹ نے اپنا تعرف کروایا اور کہنے لگی، ” میں پیشے سے وکیل ہوں، اگر آپ چاہیں تو رکشے والے کے اوپر آپ ایف آئی آر کٹوا سکتی ہیں،پولیس اہلکار نے مجھ سے پوچھا کہ میڈم کیا آپ اس رکشے والے پر کوئی کروائی کروانا چاہتی ہیں؟میں نے کہا کہ جی سر کروانا چاہتی ہوں،پولیس اہلکار نے مجھے کہا، ٹھیک ہے میڈم آپ اپنی اسکوٹی تھانے کے اندر لے چلیں_ اور رکشے والے کو بھی سخت لہجے میں اندر آنے کا حکم دیا_ مجھے ایڈوکیٹ نے اپنی مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، میں آپکے ساتھ ہوں اور آپکا یہ پورا معاملہ میں اپنے زیر نگرانی حل کرواں گی،مجھے بہت حوصلہ ملاپھر ہم میں، ایڈوکیٹ، رکشے والاملیر تھانے کے اندر موجود آفس میں طلب کئے گئے،اندر موجود افسروں نے تسلی سے پورا معاملہ سنا اور میرے حق میں ایڈووکیٹ کی گواہی بھی سنی اور پھر میرا لائسنس اور اسکوٹی کے کاغذ مانگے، جو کہ میں نے فورا اپنے بیگ سے نکال کر دے دیئے، اب رکشے والے سے لائسنس اور گاڑی کے کاغذ مانگے تو اس نے کہا، نہیں ہیں سر یعنی، نا رکشے کے کاغذ تھے اور نا ہی لائیسنس اور پوچھا گیا کہ یہ رکشا کس کا ہے؟ تو کہنے لگا کہ بھائی کا ہے،اب یہاں اِس موقع پر میں پرجوش ہوگئی، اور جوش سے مٹھی بھینچ لی اور بولی،سر اِس کا تو پہلے چالان بنتا ہے، چالان کاٹو،ایف آئی آر بعد میں کٹے گی ،پہلے چالان کاٹو،یہ ایسے کیسے کسی اور کا رکشہ لے کر روڈ پر نکلا ہوا ہے جبکہ نا لائسنس پاس ہے اور نا ہی رکشے کے کاغذ،اب میرے جوش کو دیکھتے ہوئے ایڈووکیٹ بھی میری حمایت میں بولنے لگی بہرحال کہانی میں نیا اور حیران کن موڑ تب آیا جب ایک ایڈوکیٹ اور آگیا اور رکشے والے کو بچانے کیلئے مجھے اور میری محسنہ وکیل کو ڈرانے دھمکانے لگااور مجھے کہنے لگا کہ میڈم، کچھ لے دے کر معاملہ رفع دفع کر لو،ایف آئی آر میں کیا رکھا ہے،مجھے شدید غصہ آنے لگا، میں نے کہا کہ سر، اس رکشے والے نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے پاس لائسنس بھی نہیں ہے اور رکشے کے لیگل پیپر بھی نہیں ہیں، پتا نہیں کس کا رکشا ہے یا چوری کا ہے اور جبکہ میرے پاس ہر چیز ہے، عورت ہوتے ہوئے میرے پاس بائیک لائسنس بھی موجود ہے، میری اسکوٹی کے کاغذ بھی موجود ہیں، میں نے سر پر ہیلمٹ پہنا ہوا تھا، میری گاڑی کا انڈی گیٹر آن تھا اور مجھے آپ مشورہ دے رہے ہو کہ میں رشوت لے کر معاملہ رفع دفع کر دوں،کیوں سر؟ میں نے مزید کہا کہ میں اِس کے اوپر کیس کیوں نا کروں سر؟ میں ایک سال سے زائد عرصے سے بائیک چلا رہی ہوں سر، اور میں اس ایک سال میں کتنی ہی مرتبہ اِس جیسے رکشے والوں کی اِس ہی تیز رفتاری کی وجہ سے بیسوں مرتبہ ایکسیڈنٹ کروا چکی ہوں سر، یہ کراچی کی ڈمپر معافیہ، یہ رکشے والے، یہ بسوں والے یہ سب انتہائی تیز رفتاری سے روڈ پر یوں نکلتے ہیں جیسے روڈ انکے باپ کا ہے، انکی ذاتی جاگیر ہے یہ پورے کراچی کے روڈ؟ انکو سزا دلوانے کے بجائے مجھے یعنی ایک ذمہ دار شہری کو کیوں کہا جا رہا ہے کہ رشوت لے کر معاملہ رفع دفع کر دوں؟ تحریر طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے، مختصر لکھنے کی کوشش کرتی ہوں، آپ یقین کریں، تھانے کے اندر موجود تمام ہی اسٹاف نے مجھ پر اور میری محسنہ وکیل پر بہت پریشر ڈالا کہ میں رکشے والے سے کچھ پیسوں کے عوض معاملہ چھوڑ دوں اور ایف آئی آر نا کٹواںاور تو اور تقریبا تین وکیل بھی اِس معاملے میں رکشے والے کو بچانے کی ہرممکن مدد کر رہے تھے،میری محسنہ وکیل ماشا اللہ دبنگ بندی تھی، ہر ممکن میری سپورٹ میں کھڑی رہی اور میرے ساتھ ساتھ ہی رہی، مجھے چھوڑ کر نہیں بھاگی، چاہتی تو میرے معاملے کو چھوڑ کر بھاگ سکتی تھی، آخر کو وہ بھی عورت ہی تھی ڈر سکتی تھی کہ جو بھی تھا، میں اسکی نا ہی رشتے دار تھی اور نا ہی جاننے والی،وہ صرف انسانیت کے ناتے میری مدد کر رہی تھی اور میں بہت مشکور ہوں اپنی محسنہ کی،میں حیران تھی کہ رکشے والے کو پولیس والے اور وکلا آخر کیوں بچا رہے تھے، مجھے معاملہ بہت “جھول” والا لگ رہا ہے اسی وجہ سے تحریر کرنا پڑااور پھر جب پولیس والے کسی بھی طرح میری درخواست پر ایف آئی آر نہیں کاٹ رہے تھے اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور میرا مسلسل اصرار تھا کہ ایف آئی آر کاٹی جائے، مجھے کوئی پیسے نہیں لینے، ہمیں پولیس اسٹیشن میں بیٹھے ہوئے اور مسلسل اصرار ر کرتے ہوئے 3 گھنٹے ہو چلے تھے اور ابھی بھی کوئی ہماری درخواست پر رکشے والے کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی جا رہی تھی پھر، میری وکیل نے جو کہ میرے ساتھ ہی کرسی پر بیٹھی تھی، کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ” دیکھیں رخشندہ اب معاملہ آپکے سامنے ہے، کوئی بھی ایف آئی آر نہیں کاٹے گا اور یہاں مزید بیٹھنے اور ٹائم برباد کرنے کو کوئی فائدہ نہیں، آپ کو مشورہ دیتی ہوں کہ آپ ان سے کچھ پیسے لے لو، اور جو بھی ہے بہرحال آپکی اسکوٹی کا نقصان ہوا ہے، ڈیمج ہوئی ہے اسکو ریپئیر بھی کروانا ہے، آپ انسے پیسے لے لو،قصہ مختصر، پھر دس ہزار میں رکشے والا چھوٹ گیااور مجھے اپنے پاکستان کے قانون پر شدید افسوس ہے،شدید ترین دکھی ہو کر میں تھانے سے نکلی کہ حق پر ہوتے ہوئے میری ایک نہیں سنی گئی ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں، جہاں جان کی قیمت اتنی سستی ہے، جہاں ٹریفک کے رولز کو مکمل فولو کرنے والے جو چند ایک لوگ بچے ہیں وہ بھی اپنی جان سے جائیں گے ایسے ہی کسی رکشے والے کی تیز رفتاری سے، ایسے ہی کسی ڈمپر کے نیچے آ کر کچلے جائیں گے اور انکو سزا دلوانے والوں کے ایسے ہی رشوت دے کر منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی تو قارئین آپ نے یہ ملکانی صاحبہ کی کہانی پڑھی یقینا میری طرح آپ بھی اس تمام آپ بیتی کو پڑھ کر افسوس کررہے ہونگے ایک خاتون کے ساتھ ایسا ہو جبکہ وہ قانون کی مکمل پاسداری کررہی تھی جبکہ قانون کی دھجیاں بکھیرنے والا پولیس اسٹیشن سے مک مکا کر نکل جائے تو ایسے میں ہم کو معاشرتی طور پر اچھی تربیت کی بھی ضرورت ہے جسکا اس معاشرے میں فقدان نظر آتا ہے افسوس امید ہے ہمارے نظام میں بہتری آئیگی اچھے افسران آکر اس نظام کو بدلیں گے ،انشا اللہ!
٭٭٭










