فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
2

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! امیرالمومنین، خلیفتہ المسلمین، خلیفہ اوّل بلافصل، افضل البشر بعد الانبیاء حضرت سیدنا عبداللہ ابوبکر صدیق عتیق بن الوقھمافہ عثمان رضی اللہ عنھما بائیس جمادی الثانی ١٣ سن کو وصال باکمال پا گئے تھے۔ آج تقریباً چودہ سو چونتیس سال ہوگئے ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی تعلیمات اور ذکر مکمل طور پر تروتازہ ہے کیوں نہ ہو؟ اسے محبت مصطفیٰ ۖ کا پانی لگا ہوا ہے۔ یہ قیامت تک جاری وساری رہے گا اسے نہ کوئی روک سکا ہے نہ روک سکتا ہے اور نہ کوئی روک سکے گا آپ رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت سی آیات طیبات ہیں احادیث مبارکہ کا تو ایک ذخیرہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خاوندی جلّ جلالہ ہے۔ ترجعہ: اے مسلمانو! اگر تم میرے محبوب کی نہ مدد کرو گے تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تو ان کی اس وقت مدد فرمائی جب کفار کی شرارت سے ان کامکہ سے باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب کہ وہ دونوں غار میں تھے۔ جب محبوب اپنے یا غار سے فرماتے تھے کہ غم نہ کرو۔ بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر سکینہ اتارا اور ایسے لشکروں سے اس کی مدد فرمائی جن کو تم لوگوں نے نہیں دیکھا۔ اور کافروں کی بات نیچے ڈال دی۔ اور اللہ ہی کا بول بالا ہے۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے( سورہ توبہ پارہ نمبر1 ) تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ سورہ توبہ کی یہ مقدس آیت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل وکمالات میں نازل ہوئی ہے اور تمام مفسرین ومورّخین کا متفقہ بیان ہے کہ ”غار ثور” میں ہجرت کی رات حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی بھی محبوب خدا ۖ کا یار غار وفادار اور رفیق غم گسار نہیں تھا۔ اور واقعی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت احمد مختار ۖ کے ایسے یارغار اور وفادار جاں نثار بات ہوئے کہ وفاداری وجاں نثاری کی انتہائی منزل بیان کرنے کے وقت آپ کا نام ضرب المثل بن گیا ہے۔ چنانچہ آج بھی اگر کوئی شخص کسی کا انتہائی محبّ وغم گسار اور اعلیٰ درجے کا یارونا دار اور رفیق خاں نثار ہوتا ہے تو اس موقع پر کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں شخص تو فلاں کایار غار” ہے جناب بشیر احمد امروہی نے کیا خواب خراج تحسین پش کیا ہے:
دشمن میں دیکھتا ہوں جیسے یار غار کا…… جی چاہتا ہے نوچ لوں منہ اس گنوار کا
قرآن نے اُن کو ”ثانی اثنین” کہہ دیا…… ثانی نہیں خدا کی قسم یار غار کا
اس آیت مقدسہ میں جس کا ترجعہ اوپر ذکر ہوا ہے اِذیَقُولُ لِصا حیبہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت ثابت ہوتی ہے اس لئے آپ کا صحابی ہونا اتنا قطعی و یقینی ہے کہ اگر کوئی بدنصیب آپ کی صحابیت کا انکار کرے تو وہ قرآن کا منکر اور کافر ہوجائے گا۔ (العیاذ باللہ) اسی طرح اس آیت میں فَاَنَزَلَ اللہ سَکیتََہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوند قدوس نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اپنا ”سکینہ، اتارا یعنی اپنی طرف سے قلبی اطمینان اور روحانی تسکین کا سامان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کیلئے ہیں۔ خواب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اس آیت میں عَلَیہِ کی ضمیر(ہ) کا مرجع یقیناً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ اور اللہ پاک نے سیکنہ انہیں پر اتارا۔ کیونکہ نبی کریم علیہ الصّلواة والسّلام کا مقدس سینہ تو ہمیشہ اور ہر حال میں سکینہ الٰہی کا سفینہ رہا اور آپ کا قلبی اطمینان تو ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی زائل ہی نہیں ہوا تھا اس لئے ”غار ثور” میں آپ ۖ پر سکینہ اترنے کے کوئی معنیٰ ہی نہیں ہیں۔ گھبراہٹ اور بے قراری تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کے قلب میں ہے تھی جو سکینہ اترنے سے کافور ہوگئی لہٰذا خداوند قدوس نے اپنے حبیب ۖ کے یار غار کے قلب اطہر کو سکون قرار بخشنے کے لئے اپنا سکینہ نازل فرمایا۔
اے اہل اسلام! یہ ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عظمت وشان اور بلند رتبہ کہ خداوند قدوس نے ان کی صحابیت پر اپنی شہادت کی مہر لگا دی۔ اور ان کو اپنے محبوب کا یارغار بنا دیا۔ یہ ایسی عزت اور شان ہے جو کسی اور صحابی رضی اللہ عنہ کو نصیب نہیں ہوئی۔ خدا کی قسم! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سر صداقت پر یہ اعزاز واکرام کے وہ تاج شہنشاہی ہیں جنہیں دیکھ کر اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے۔ جسے وہ چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اسی طرح ایک دوسری آیت کریمہ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عظمت شان کا بیان کرتے ہوئے قرآن پاک نے اعلان فرمایا ہے: ترجعہ: جہنم یہ بہت دور رکھا جائے گا وہ سب سے بڑا پرہیز گار جو اپنا مال اس لئے دنیا ہے تاکہ وہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے۔ وہ صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے اور بے شک عنقریب وہ خوش ہو جائے گا۔ مطلب اس آیت مقدسہ کا یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خدا کی راہ میں جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں وہ اس لئے کہ وہ اپنے نفس کو پاک اور ستھرا کرنا چاہتے ہیں ان کے اوپر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ وہ احسان کا بدلہ چکانے کے لئے مال خرچ کرتے ہیں ان کا مقصود تو صرف اس قدر ہے کہ ان کا رب کریم ان سے خوش ہوجائے چنانچہ رب العزت نے خوش ہو کر وعدہ فرما لیا کہ وہ صدیق اکبر کو ایسی جزا عطا فرمائے گا کہ وہ بھی اپنے رب سے راضی اور خوش ہوجائے گا۔ ان آیات طیبات میں اللہ پاک نے کافروں کے اعتراضات کے جوابات ارشاد فرماتے ہیں جو کہتے تھے کہ ابوبکر غلاموں کو خرید کر اس لئے آزاد کرتا ہے کہ ان کا اس پر کوئی احسان ہوگا، اللہ پاک آپ کے درجات مزید بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے فیوض وبرکات سے وافر حصہ عطا فرمائے (آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here