ضامن!!!

0
3
عامر بیگ

پاکستان کی سیاست میں سوالات کبھی ختم نہیں ہوتے، مگر بعض سوال ایسے ہوتے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہتا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف قائم مقدمات اور ان پر جاری عدالتی کارروائی انہی سوالات میں سے ایک ہے۔ ایک بڑا طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ ان مقدمات میں شفافیت کا وہ معیار نظر نہیں آتا جو کسی بھی عوامی نمائندے کے لیے لازم ہے۔ اس تناظر میں یہ اعتراض بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اگر ایک کارگزار سیاست دان کو اظہارِ رائے سے روکا جاتا ہے، تو پھر دیگر ریاستی ذمہ داروں کے لیے بھی وہی اصول لاگو ہونے چاہئیں۔ اسی بحث کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ملک کے حاضر سروس جرنیل یا عسکری حکام کو آئینی طور پر سیاسی معاملات سے دور رہنے کا حلف دیا جاتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات مختلف پریس کانفرنسوں یا بیانات کی بنیاد پر یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ وہ سیاسی منظرنامے پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ صحافتی ذمہ داری یہی تقاضا کرتی ہے کہ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف آئینی دائرہ کار کو سامنے رکھا جائے بلکہ اس حساس معاملے میں غیرجانبداری اور سنجیدگی بھی برقرار رکھی جائے۔ سیاست اور ریاست کے درمیان خطِ امتیاز واضح رہنا ہر نظام کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔ دوسری طرف عمران خان کے سیاسی بیانیے کی مقبولیت، چاہے اس سے اختلاف کیا جائے یا اتفاق، ایک حقیقی سیاسی حقیقت ہے۔ اگر ایک بیانیہ اپنی قوتِ تاثر کے باعث طاقت ور مراکز کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر وہ بیانیہ عوامی جذبات سے ہم آہنگ ہے۔ عوامی نمائندگی کا اصل معیار یہی ہے جس کے خیالات عوام کے دلوں میں جگہ بنائیں، وہی سیاسی طور پر اثر انگیز ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ سیاسی قوتوں نے اقتدار تک رسائی کے لیے سمجھوتوں یا سیاسی سودے بازیوں کا راستہ اختیار کیا، اور حالیہ انتخابات کے نتائج پر اٹھنے والے اعتراضات نے اس تاثر کو اور بھی تقویت دی ہے۔ اگر انتخابی عمل کے بارے میں سوالات بڑھتے رہیں اور جواب نہ ملیں، تو پھر سیاسی نظام میں اعتماد برقرار رکھنا مشکل ہوتا جاتا ہے ۔شفافیت نہ صرف جمہوریت کی بنیاد ہے بلکہ سیاسی استحکام کی ضمانت بھی۔ یہ صورتحال کب تک جاری رہ سکتی ہے؟ اس کا جواب شاید یہی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس وقت تک پائیدار سمت اختیار نہیں کر سکتا جب تک اقتدار کی کشمکش، ادارہ جاتی تجاوزات، اور سیاسی عدم برداشت کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ ہر ادارے کو اپنے آئینی کردار تک محدود رہنا ہوگا، اور ہر سیاسی جماعت کو اصولی سیاست کو ترجیح دینا ہوگی۔ آخرکار ریاست کی ساکھ اور عوام کی امیدیں اسی وقت بحال ہو سکتی ہیں جب انصاف، شفافیت اور سیاسی توازن کو عملی طور پر نافذ کیا جائے ۔معاملات کو دبانے یا مخر کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اکثر پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کو اب ایک ایسی راہ کی ضرورت ہے جہاں نمائندگی کا فیصلہ صرف عوام کریں، اور ہر فیصلہ آئین کی روشنی میں ہو۔ یہی راستہ دیرپا استحکام کا واحد ضامن ہے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here