فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
178

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! اہل اسلام قربانی کے سلسلہ میں ہر طرف جانوروں کی خریدوفروخت میں مصروف عمل ہیں۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت محمد حبیب اللہ علیھما الصّلواة والسّلام کی پیاری پیاری سنت کو رضائے الٰہی کے لئے ادا کرنے کا پورا پورا جذبہ لئے ہوئے ہیں۔ یہ جذبہ ہونا بھی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں جانوروں کی قربانی کا حکم دیا ہے کہیں اولاد کی قربانی کا حکم سے نہیں آزمایا۔ قربانی کے سلسلہ میں بہت ساری باتوں کا ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو زہد وتقویٰ اور اللہ اور پیارے محبوبۖ کی رضا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ ریا کاری اور کسی کو نیچا دکھانے کا عنصر ہم میں نہ پایا جائے۔ ہر عمل کی روح عاجزی اور انکساری ہے۔ اس سلسلہ کو اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھا جائے۔ دل کی خوشی سے خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا جائے۔ کیونکہ نبی پاکۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یوم النحر(دسویں ذی الحجہ) میں ابن آدم کا عمل خدا کے نزدیک خون بہانے(قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں ہے اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھُروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا اس کو خوش دلی سے کرو۔ دس، گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کو قربانی کا وجوب ادا کیا جاسکتا ہے اور ان دنوں میں جانور کے عوض کوئی صدقہ قابل قبول نہیں ہوتا کیونکہ یہ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السّلام کی عظمت کو بھی سلام عقیدت پیش کرنا ہوتا ہے جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اپنے آپ کو خوش دلی سے چھری کے نیچے پیش کردیا وہ علیحدہ بات ہے کہ اللہ کے حکم سے چھری نے کاٹا بھی نہیں اور قبول کا شرف بھی عطا فرما دیا گیا۔ اس لئے جانور خریدتے وقت یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ جانور میں کوئی ایسا عیب نہ ہو جس کی وجہ سے اس کی قربانی قبول نہیں ہوتی۔ عید قربان میں اہل اسلام کے لئے بہت سارے اسباق کے ساتھ ساتھ جذبہ ایثار کا سبق بھی عطا کیا جاتا ہے۔ انسانی ہمدردی بہت بڑی نعمت ہے جس کو اسلام کے ساتھ یہ نصیب ہوجائے وہ ایک باکمال انسان بن جاتا ہے۔ یاد رہے کہ قربانی کا سلسلہ پچھلی امتوں میں بھی تھا۔ لیکن کسی نبی علیہ السّلام نے اپنی امت کو گوشت نہیں کھلایا۔ اور پھر قبولیت وعدم قبولیت کا سلسلہ بھی کھلم کھُلا تھا۔ پہلی امتوں کی قربانی یہ تھی کہ کھلے عام میدان میں جانور رکھ دیا جاتا کوئی آگ وغیرہ نے آکر اٹھا لیا تو قربانی قبول ورنہ مردود لیکن ہمیں پیارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ آمنہ کے لعل عبداللہ کے تارے محمد پیارے علیھم الصّلواة والسّلام کے صدقہ سے یہ اعزاز ملا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے ذبح کرو اور اس قربانی کے تین حصے کرو۔ ایک اپنے اہل وعیال کے لئے دوسرا رشتہ داروں اور دوستوں کے لئے اور تیسرا حصہ فقراء ومساکین کے لئے یعنی قربانی کرو، گوشت خود بھی کھائو اور دوستوں کو بھی کھلائو اور فقراء ومساکین کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرو۔ باقی اللہ جلّ جلالہ کی رحمت کی امید رکھو کہ وہ محبوبۖ کے صدقہ سے قبول فرمائے گا لیکن اس بات کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کہ اس نے ہمیں ظاہری رسوائی سے بچا لیا۔ کہ قبولیت اور عدم قبولیت کے معاملہ کو دوسری امتوں کی طرح ظاہر نہیں رکھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس خوشی میں ہم قربانی کا سارا گوشت فقراء ومساکین اور حاجت مندوں کو دے دیتے۔ لیکن اس کے برعکس ہم قربانی کے گوشت پر بڑی بڑی دعوتیں کرنے لگ گئے اور دوستیاں پالنے لگ گئے یا اپنا پیٹ سامنے رکھا فقراء و مساکین کو بھلا دیا۔ یا پھر دو طرح کی قربانیاں کرکے بکرے کا گوشت گھر میں اور گائے، بھینس کاگو تقسیم کیلئے کردیا اس بات کو بھول گئے کہ اللہ کے محبوبۖ نے فرمایا ہے لوگوں کے لئے وہ پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تم نیکی کو ہرگز اس وقت تک نہیں پاسکو گے جب تک اپنی محبوب چیز نہ خرچ کرو گے۔ بہرحال شریعت مطھرہ میں اختیارات بھی ہماری آزمائش ہیں اس آزمائش میں کامیابی کی صورت یہی ہے کہ تیسرا حصہ گھر والوں کے لئے رکھ کر ہر قربانی کے دو حصے سنت طریقہ سے تقسیم کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا کا استحقاق پائیں۔یہ نظریہ رکھتے ہوئے کہ جس ذات پاک نے آج ہمیں دیا ہے وہ رہتی زندگی تک عطا فرمانے پر مکمل طور پر قادر ہے بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ اور بہتر عطا فرماتا ہے قربانی ہر اس شخص پر واجب ہے جو دو سو درھم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دو سو درھم ہو وہ غنی ہے اس پر قربانی واجب ہے حاجت سے مراد رہنے کا مکان، خانہ داری کے سامان جن کی گھر میں ضرورت ہو اور سواری کا جانور، خادم اور پہننے سے کپڑے۔ ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں۔ دو سو درھم سے مراد ساڑھے باون تولے چاندی ہے اور بیس دینار سے مراد ساڑھے سات تولہ سونا ہے روپے پیسوں اور دیکر سامان کا حساب چاندی سے ہی لگایا جائے۔ اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھنے اور عمل میں لانے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here