قارئین اور عزیزان وطن! جس دن یوم تکبیر منایا جا رہا تھا سرکاری خوراک پر چلنے والے ٹیلی ویژنوں اور چمچہ شاہی اخباری مالکان اور ان کے زیر اثر صحافی نوکروں کا ایک شور تھا کہ امریکہ تک ہمارے کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا کہ پاکستان کے ایٹم بم کا سارا کاسارا کریڈٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے، سرکاری اشتہاروں کا انبار لگا ہوا تھا، تین تصویروں کے ساتھ نواز شریف ، شہباز شریف، مریم صفدر اور حال فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ، کہیں ایک زرداری سرمایہ کی جھلک نے ذولفقار علی بھٹو مرحوم کی تصویر لگائی تھی ،شور اس بات کا تھا کہ نواز شریف نے بھارت کے پانچ دھماکوں کے مقابلے چھ دھماکے کر کے پاکستان کو 7 ویں ایٹمی طاقت بنایا حالانکہ اس پر امریک کا بڑا زور تھا کہ میاں صاحب ایٹمی دھماکہ مت کریں میں آپ کو 5 بلئین ڈالر دوں گا اور قرضہ بھی معاف کر دوں گا، فارم 47 وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی یہی دھائی دی کہ نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے اور پھر بیٹی وزیر اعلیٰ فارم 47 میدانِ شور میں اتری کے میرے پاپا نے ایٹم بم نہ صرف بنایا بلکہ دھماکہ کر کے پاکستان پر احسان کیا ہے اور 7 مئی بھارت کو شکست دے کر دوسرا احسان کیا ہے اور یہی حال چمچوں اور کھڑچوں کا بھی رہا ،نواز شریف محسن پاکستان ہے اور چمچوں میں سب سے بڑی چیخ و پکار عظمیٰ بخاری کی تھی شکر ہے کہ عظمیٰ نے یہ کلیم نہیں کیا کہ اصل میں میاں شریف نے اپنے بھائیوں سے چھپ کر اپنے تین بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ مل کر دال گیرہ چوک پر واقعی اپنے ڈھلائی کی بھٹی میں پاکستان کا ایٹم بم ڈھالا ہے اور پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر اسلام کا قلعہ بنا دیا ہے واہ شریفوں خوب کمال کرتے ہو۔ قارئین اور عزیزان وطن! تاریخ کے پنوں کو پلٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ کون پاکستان کا حقیقی محسن ہے سب سے پہلے تو پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کی بنیاد 1956 میں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے رکھی جن کو بیروت میں شہید کردیا گیا تھا ،1971 تک کمیشن کا کام انرجی کی ضروریات پر توجہ دینا تھا ،1971 میں جب پاکستان کو بھارتی ٹرینڈ مکتی بانی کے ساتھ مل کر اندرا گاندھی نے پاکستان کو مشرقی پاکستان میں شکست دی اور اس کے بعد اپنی کامیابی کے ضوم میں بھارت نے ایٹم بم کا دھماکہ کیا جس نے ساوتھ ایشیا میں ملٹری توازن کو اُلجھا کر رکھ دیا پھر اس کے مقابلے میں ذولفقار علی بھٹو نے دانشوروں اور بیوروکریٹس کی بیٹھک بلائی اس وقت پنجاب کے گورنر جنرل عتیق الرحمان نے بھٹو کو مشورہ دیا کہ جس طرح مغرب آپس میں نہیں لڑتا اس کی بنیادی وجہ کہ ان سب کے پاس ایٹم بم ہے اور جن کے پاس نہیں ہے ان کے پاس صلاحیت موجود ہے اس مشورہ نے بھٹو صاحب کو ٹرگر کیا اور انہوں نے تہیہ کر لیا کے گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنا کر رہیں گے بس پھر وہ اس مشن پر گامزن ہو گئے کہ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا کر ہی دم لیں گے ،چاہے میری جان چلی جائے، ہمارے بم کا حقیقی بانی اور محسن ذولفقار علی بھٹو مرحوم ہیں جنہوں نے اپنے مشن اور پاکستان کو ایک نقابل تسخیر قلعہ بنانے کی پاداش میں امریکی فارن سیکٹری ہینری کیسنجر کے حکم پر مقتل کی نظر کئے گئے ،اس کے بعد ایک طویل لسٹ ہے بھٹو کے پروگرام کو منزل مقصود تک پہنچانے میں سب سے پہلا نام ڈاکڑ عبدالقدیر خان سابق صدر مرحوم اسحاق خان فیلڈ مارشل سے ایک فٹ کی دوری پر رہنے والے مرحوم صدر جنرل ضیا الحق اور ان لوگوں کے بعد ہر اس شخص کو کریڈٹ جاتا ہے جس نے اس کے بنانے میں ایک کیل بھی ٹھوکی ہے خاص طور پر کرنل سراج انجینئرنگ کور کے جنہوں نے اپنی رجمنٹ کے ساتھ مل کر چاغی کو مقام فیض سمجھا اور پھر بھارت کو کریڈٹ دو جس نے پہل کر کے ہمیں راہ دکھائی اور آج اس قابل ہے پاکستان کے اس کی طرف کوئی میلی نظر نہیں کر سکتا ہے نوازی کا کہنا کہ بل کلنٹن نے 5 بلئین کی آفر کی تھی سی آئی اے کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ چاہتا تھا کہ پاکستان ہندوستان کی خطہ میں ابھرتی بالا دستی کو روکنے کے لئے دھماکہ کرے ورنہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم کہیں اور پاکستان کا بم بن جائے عزیزان وطن ،ہمیں آنکھ کھول کر تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے اور چھچوندروں کے چھچوندری نعروں دعووں سے پرہیز کرنا چاہئے اور جس کا کریڈٹ بنتا ہے اس کو اس کا کریڈٹ دینا چاہئے، نواز کا اتنا ہی کریڈٹ ہے کہ کلنٹن کے آنکھ مارنے پر دھماکہ کر دیا، پاکستان زندہ باد ۔
قارئین اور عزیزان وطن! عصر حاضر کے ابنِ بطوطہ رئیس شہر قمر بشیر صاحب اور بیگم تسنیم قمر کی سیاحت کا فائیدہ اٹھاتے ان کی نئی ٹصنیف ارض مقدس فلسطین کی سیر کی کتاب تین ابراہیمی مذاہب کا احاطہ کرتی ہے جس کا ایک ایک ورق پڑھنے کے قابل ہے اتنی اسلامک ہسٹری 208صفحات میں مقید ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے کتاب کی رونمائی کم اور ایک میلہ لگا تھا پاکولی نے رئیس شہر کی آنر میں کتاب کی رونمائی منعقد کی تھی امریکہ کی سر زمین پر پھیلے ہوئے دانشوروں کا ہجوم تھا صدارت کے فرائض محقق دانشور کالم نگار اور پالستان ٹیلی ویزن کے ابتدائی ڈائریکٹر اتیق احمد صدیقی صاحب نے کی معزز مہمان گرامی واصف حسین اصف صاحب نے کی شاعر اور محقق رضی الدین راضی صاحب کتاب نظامت کی ترتیب بدلی ہوئی تھی وکیل شہر کی جگہ اس دفعہ ڈاکٹر ثروت رضوی صاحبہ کر رہی تھی بہت بڑے بڑے دانشوروں نے ابن بطوطہ رئیس شہر قمر بشیر صاحب کی تصنیف پر بڑے پر مغز مقالہ جات پڑھے ہماری بھابھی رئیس شہر کی شہر انبیا میں ہم رقاب کیا فل بدی تقریر کی طبیعت کی ناسازی کے باوجود ہر سامعین کو اپنی پر وقار گفتگو سے محسور کیا ہمارے اردو اور پنجابی کے شاعر اعجاز بھٹی صاحب نے کمال کا کلام پڑھا کہ داد دینے می کنجوس بھی نہیں رہ سکا کالم اپنی تنگ دامنی کی وجہ سے175 مہمانوں کے نام لکھنے سے قاصر ہے لیکن ڈاکٹر ل م شاہد چغتائی اور بیگم چغتائی ، ملک منصور لاہوری ، ثمر جیلانی امروہی ، ملک سجاد ایمن آبادی ، گوہر علی خان ، نواب زادہ میاں ذاکر نسیم دیپالپوری ، شاہد اور بیگم اکبر ، مشہور سنگر اور ڈرم نادر خان صاحب بھی اس پر وقار محفل میں شریک تھے اللہ پاک ہمارے رئیس شہر کو عمر خضر عطا کرے صحت اور تندرستی کے ساتھ اور ان کی اگلی تصنیف بھی شہر انبیا کی طرح زور قلم سے بھرپور ہو آمین ۔
٭٭٭












