تصوف کا تعارف!!!

0
132
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج کے موضوع پر کچھ دلائل اور تصوف کے حوالے سے بات ہوگی جس سے قارئین کرام کے بہت سے ابہام اور سوالات کا جواب بھی مل جائیگا ۔ تصوف: تصوف کیا ہے؟ حضرت سیِدنا حارثہ رضِی اللہ تعالی عنہ یقین ومعرفت کے جس مرتبے پر فائز تھے اسی کا نام علم حال یعنی تصوف ہے۔ تصوف کیا ہے؟ اس کے متعلق بزرگانِ دین رحِمہم اللہ المبِین سے بے شمار اقوال منقول ہیں ، کیونکہ ہر ایکنے اپنے مقام و مرتبہ اور حال کے اعتبار سے تصوف کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ، امام ابو القاسم عبد الکریم بن ھوازن قشیری علیہِ رحماللہِ القوِی (متوفی ھ) رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں کہ حضرت سیِدنا رویم بن احمد علیہِ رحماللہِ الصمد سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحماللہِ تعالی علیہنے ارشاد فرمایا: تصوف یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو اپنے رب کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جو چاہے اس سے کام لے اور جب حضرت سیِدنا جنید بغدادی علیہِ رحماللہِ الہادِی سے تصوف کے متعلق پوچھا گیا تو آپ رحماللہِ تعالی علیہنے ارشاد فرمایا: تصوف یہ ہے کہ اللہ عز وجل کے سوا کسی سے بھی کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔ ([1])
صوفی کون؟: حضرت سیِدنا ابو الحسن قناد علیہِ رحماللہِ الجواد سے جب صوفی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحماللہِ تعالی علیہنے ارشاد فرمایا: صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ عز وجل کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتا ہے۔ ([2])شیخ ابو نصر سراج طوسی علیہِ رحماللہِ القوِی مزید ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ صوفی وہ لوگ ہیں جو اللہ عز وجل کو خوب پہچانتے ہیں ، اس کے احکام کا علم رکھتے ہیں ، جو کچھ اللہ عز وجل کے علم میں ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں ، اللہ عز وجل ان سے جو کام لینا چاہتا ہے یہ اس کو پورا کرنے کے لیے ثابت قدمی دکھاتے ہیں ، پختہ عمل کی بدولت وہ اللہ عز وجل سے کچھ پا لیتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے اس کی وجہ سے فنا ہو جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ہر پا لینے والا آخرکار فنا ہو جایا کرتا ہے۔([3])
تصوف کی اصل: تعلیماتِ تصوف پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تصوف میں دو باتیں اصل کی حیثیت رکھتی ہیں : تزکیہ نفس اور احسان۔ تزکیہ نفس کا ذکر قرآنِ کریم میں بعثت نبوی کے مقاصد میں بار بار آیا ہے اور احسان کا ذکر حدیثِ پاک میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث ِ جبریل کو تصوف کی اصل سمجھا جاتا ہے جس میں احسان کی تعریف کی گئی ہے۔ چنانچہ، حضرت سیِدنا ابوہریرہ رضِی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم، شاہ ِبنی آدم صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے: مجھ سے (دین کی باتیں ) پوچھا کرو۔ مگر بارگاہِ نبوت کا ادب بجا لانے اور غلبہ ہیبت کی وجہ سے صحابہ کرام علیہِم الرِضوان کو سوالات کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ لہذا حقائقِ دینیہ سکھانے کے لیے اللہ عز وجلنے حضرت سیِدنا جبریل علیہِ السلام کو انسانی شکل میں بھیجا تاکہ وہ سوال کریں اور معلم کائنات صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم جواب میں اس طرح نایاب موتی نچھاور فرمائیں کہ صحابہ کرام علیہِم الرِضوان کا دامن علمی جواہر پاروں سے بھر جائے۔ چنانچہ حضرت سیِدنا جبریل علیہِ السلامنے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر جو سوالات پوچھے وہ دین کی اساس کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان سوالات کے جو جوابات سرورِ دو عالم صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلمنے عطا فرمائے وہ کل علومِ دینیہ کا خلاصہ و نچوڑ کہے جا سکتے ہیں ۔ مثلا شارع ہونے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم سے مروی دینی علوم پر مشتمل کل احادیثِ مبارکہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو صورت کچھ یوں بنے گی:
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم سے مروی بعض احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں دین کے اصول و نظریات یعنی عقائد کی تعلیم مروی ہے۔
بعض احادیث اعمالِ ظاہرہ کی اصلاح سے متعلق ہیں۔
اور بعض اصلاحِ باطن سے متعلق ہیں ۔

پس حضرت سیِدنا جبریل علیہِ السلام کے پوچھے گئے سوال ٭ ما الاِیمان؟ ایمان کیا ہے؟ کے جواب میں آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلمنے اصلاحِ عقائد کے حوالے سے دین کے اصول و نظریات کچھ یوں بیان فرمائے کہ ایمان یہ ہیکہ تم اللہ عز وجل ، اسکے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، قیامت کے دن اور ہر خیر و شر کو اللہ عز وجل کی تقدیر سے وابستہ مانو۔٭ ما الاِسلام؟ اسلام کیا ہے؟ کے جواب میں آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلمنے اعمال ظاہرہ کی اصلاح یوں فرمائی کہ تم توحید و رسالت کی گواہی دو، نماز پڑھو، زکو ادا کرو، رمضان شریف کے روزے رکھو اور اگر توفیق ہو تو حج کرو۔٭ اور ما الاِحسان؟ احسان کیا ہے؟ کے جواب میں آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلمنے اصلاحِ باطن کے حوالے سے کچھ یوں ارشاد فرمایا: اللہ عز وجل کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ اللہ عز وجل کو دیکھ رہے ہو اور اگر اس مقام کو نہ پا سکو تو یہ یقین رکھو کہ اللہ عز وجل تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ یہی تصوف کی اصل ہے۔
تصوف کی بنیادی خصوصیات:
حضرت سید علی بن عثمان جلابی المعروف حضور داتا گنج بخش ہجویری علیہِ رحماللہِ القوِی اپنی شہرہ آفاق کتاب کشف المحجوب کے صفحہ پر سید الطائفہ حضرت سیِدنا جنید بغدادی علیہِ رحماللہِ الہادِی کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیادی خصوصیات آٹھ ہیں : (1) سخاوت(2) رضا(3) صبر (4) اشارہ (5) غربت (6) گدڑی (لباس) (7) سیاحت اور (8) فقر۔
یہ آٹھ خصلتیں آٹھ انبیائے کرام علیہِم الصلو والسلام کی سنت ہیں ۔ چنانچہ،

(1) سخاوت حضرت سیِدنا ابراہیم علی نبِیِنا و علیہِ الصلو والسلام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے راہِ خدا میں اپنے جگر گوشہ کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا۔

(2) رضا حضرت سیِدنا اسماعیل علی نبِیِنا و علیہِ الصلو والسلام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپ نے رب کی رضا کے لیے اپنی جانِ عزیز کو بھی بارگاہِ خداوندی میں پیش کر دیا۔

(3) صبر حضرت سیِدنا ایوب علی نبِیِنا و علیہِ الصلو والسلام کی سنت ہے۔ کیونکہ آپنے بے انتہا مصائب پر صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے رب کی آزمائش پر ثابت قدم رہے۔

(4) اشارہ حضرت سیِدنا زکریا علی نبِیِنا و علیہِ الصلو والسلام کی سنت ہے۔ کیونکہ رب تعالی نے ان سے ارشاد فرمایا:

الا تلِم الناس ثلث ایام اِلا رمزا- (پ، ال عمران: )

ترجمہ کنز الایمان: تین دن تو لوگوں سے بات نہ کرے مگر اشارہ سے۔

اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:

اِذ ناد ربہ نِدآ خفِیا()(پ، مریم:)

ترجمہ کنز الایمان: جب اسنے اپنے رب کو آہستہ پکارا۔

(5) غربت حضرت سیِدنا یحیی علی نبِیِنا و علیہِ الصلو والسلام کی سنت ہے کہ انہوں نے اپنے وطن میں بھی مسافروں کی طرح زندگی بسر کی اور خاندان میں رہتے ہوئے بھی اپنوں سے بیگانہ رہے۔

(6) گدڑی (صوف کا لباس) حضرت سیِدنا موسی علی نبِیِنا و علیہِ الصلو والسلام کی سنت ہے جنہوں نے سب سے پہلے پشمینی لباس زیبِ تن فرمایا۔

(7) سیاحت حضرت سیِدنا عیسی علی نبِیِنا و علیہِ الصلو والسلام کی سنت ہے جنہوں نے تنہا زندگی گزاری اور ایک پیالہ و کنگھی کے سوا کچھ بھی پاس نہ رکھا۔ بلکہ ایک مرتبہ کسی کو اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر پانی پیتے دیکھا تو پیالہ بھی توڑ دیا اور جب کسی کو دیکھا کہ انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کر رہا ہے تو کنگھی بھی توڑ دی۔

(8) فقر محسنِ کائنات، فخر موجودات صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی سنت ہے جنہیں روئے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں عنایت فرمائی گئیں مگر آپ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: اے خدا! میری خواہش تو یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقہ کروں ۔

[1] الرسال القشیری، باب التصوف، ص

[2] اللمع فی التصوف ، ص

[3] اللمع فی التصوف ، ص
محترم قارئین کرام دنیا کے علوم بے انتہا وسیع و عریض ہیں ان کی بنیاد چند اصولوں پر ہی ہوتی ہے جو سمجھ گیا وہ پار ہوجاتا ہے یہ دنیا عمل کی جگہ ہے پھل اس کو ملے گا جو عمل کرنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتا ہو جبکہ جو لوگ اعتراض در اعتراض اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے ہیں اور بد اعتقاد ہیں اور غیر یقینی کی ذندگی گزارتے ہیں ان کیلیے بس اس فقیر کی دعا ہی ہے اور کچھ نہیں کہ وہ اہل علم حضرات سے سیکھیں اور سمجھیں ۔
عقلمند لوگ ان ہی بنیادی علوم کے باریک نقاط سمجھ کر آج مغربی دنیا میں سیمینار کرکے لاکھوں ڈالر کمار ہے ہیں جو یوگا کلاسیں اور ہپناٹزم پر بات کرتے ہیں اس پر عملی مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے ایک باعزت روزگار کے ذریعے نہ صرف نام کماتے ہیں بلکہ امریکی و یورپی شاگرد بھی بناتے ہیں مقامی لوگ لکھے پڑھے ہیں وہ اہل علم و فن کی قدر کرتے ہیں کء ہوشیار پنڈت اب اس ہی کام پر لگے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے بھاء چین کی بانسری بجاتے خواب غفلت میں ہیں ۔۔۔
خیر اس طرح کی کئی باتوں کا رونا ماضی میں رویا گیا کچھ حاصل نہیں سوائے چند ایک کالز اور خطوط کے جو حساس لوگوں کی طرف سے آئے اور ایک اثاثہ ہیں ۔تصوف کے موضوع اور اس سے جڑے دیگر علوم کی باریکیوں پر قارئین سے گفتگو جاری رہے گی اگلے ہفتے تک اجازت دیں ملتے ہیں کچھ وقفہ کے بعد
والسلام
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here