سیاسی غیر یقینی پن پر آئی ایم ایف کے خدشات!!!

0
30

پاکستان کے ساتھ طویل المدتی قرض پروگرام پر بات چیت سے قبل عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان میں سیاسی غیر یقینی پن پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔اپنی جاری کی گئی رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ غیر یقینی پن معیشت کے لئے خطرات کا باعث ہے۔رپورٹ میں عالمی ادارے نے قرض کی شرائط پر بھی بات کی ہے۔ انتخابات کو سیاسی استحکام کی انتظام سمجھا جاتا ہے ۔وطن عزیز میںعام انتخابات کے بعد معاشی استحکام کی راہ ہموار ہونے کی تمام امیدیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ سیاسی غیر یقینی کم ہونیکی امید تھی ۔ تمام سٹیک ہولڈرز اور میڈیا پنڈتوں کو امید تھی کہ الیکشن معیشت کا رخ موڑنے میں کلیدی عنصر ثابت ہوں گے۔تین ماہ کے بعد استحکام کیا آتا کئی نئے مسائل سامنے آ کھڑے ہیں ،حکومت سے امید تھی کہ وہ دانشمندانہ فیصلے کرتی لیکن فورا ہی کاشت کار احتجاج کرتے نظر آئے،اب حکومت کو گندم کے ایک بڑے گھپلے سے نمٹنا ہے۔ پنجاب کے کسان سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔حال ہی میں کرنسی نوٹوں پر اردو تحریر کی غلطیاں سامنے آئی ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ کرنسی نوٹوں پر اردو تحریر میں غلطیاں محتسب کی طرف سے نشاندہی کے بعد ہی سامنے آئیں ۔ ایک تنازعہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے پنجاب پولیس کی وکلا کے خلاف کارروائی سے پیدا ہوا۔تیسرا مسئلہ سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات ،عوام کو بجلی ،پانی اور پٹرول کی مد میں ریلیف دینے کا چیلنج ہے۔ گندم گھوٹالہ کا اندازہ نگران وزیر خزانہ کے فیصلے سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس کی حمایت نہیں کی لیکن نگران وزیر اعظم نے گندم درآمد کا فیصلہ کیا ۔انوارالحق کاکڑ نے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کا قلمدان اپنے پاس رکھا تاکہ نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب آنے والے سیزن کے لیے متوقع ہدف ملک کی کھپت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا خیال ہے کہ سیاسی مصالحت کا ماحول نہ ہونا غیر یقینی پن کی بڑی وجہ ہے ۔آئی ایم ایف کی سیاسی استحکام میں دلچسپی رہی ہے۔یہ ریکارڈ پر ہے کہ پچھلا بیل آوٹ پیکج منظور کرنے سے قبل عالمی مالیاتی ادارے نے پی ڈی ایم جماعتوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی قیادت سے بات کر کے کچھ یقین دہانیاں حاصل کیں تھیں ۔سابق تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے نے اہم مذاکرات شروع ہونے سے قبل پاکستان کو نئے مطالبات کی لسٹ فراہم کی ہے۔ ان مطالبات میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن پر ٹیکس لگانا بھی شامل ہے۔ رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کی جانب سے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف)کے تحت طویل اور بڑے سائز کے بیل آوٹ پیکج کی درخواست پر بات چیت کے لیے پاکستان پہنچ چکی ہے۔ عالمی ادارے کی ٹیم ملک کی مالیاتی ٹیم کے ساتھ اگلے طویل مدتی قرض پروگرام کے پہلے مرحلے پر تبادلہ خیال کرے گی۔ایڈوانس پارٹی مذاکرات کے بعدآئی ایم ایف کا مشن 16 مئی کی رات پہنچے گا،یہ وفد کس قدر تفصیل سے پاکستان کے معاملات پر بات کرے گا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 10 دن سے زائد پاکستان میں قیام کرے گا۔آئی ایم ایف پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 0.5 فیصد اضافی آمدنی حاصل کرنا چاہتا ہے، جس کا مطلب تقریبا 600 ارب روپے ہے۔ توقع ہے کہ یہ آمدنی بنیادی طور پر تنخواہ دار افراد اور کاروباری اداروں پر ٹیکس عائد کرنے سے حاصل ہو گی۔آئی ایم ایف فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کو ٹیکس وصولی بڑھانے پر توجہ دینے پر زور دے رہا ہے۔ آئندہ مذاکرات پاکستان کے لیے 24ویں آئی ایم ایف پروگرام کے لئے ہوں گے ،یہ آج تک کا سب سے چیلنجنگ پروگرام قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان دو مقاصد کے لئے قرض چاہتا ہے:ایک بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی غرض سے اور دوسرا موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے۔عالمی مالیاتی ادارے کے مطالبات کی لسٹ پر عمل پاکساتن کے لئے دشوار ہو سکتا ہے۔ ایک اہم نکتہ آئی ایم ایف کی ریٹائر منٹ پنشن پر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اعتراف کیا ہے کہ قرضہ پروگرام کے حتمی سائز اور مدت کا فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم تفصیلات کو جلد حتمی شکل دینے کی امید ہے۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ پنشن پر ٹیکس لگانے اور دیگر مراعات کو ختم کرنے سے حکومت کو سالانہ 22 سے 25 ارب روپے اضافی حاصل ہو سکتے ہیں۔مہنگائی اور پنشنروں کے لئے سوشل سکیورٹی سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ تنازع کا باعث ہو سکتا ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ سیاسی استحکام کو معاشی بحالی کی ضرورت قرار دیتا رہا ہے۔طویل المدتی قرض کے لئے وہ ایک بار پھر حکومتی اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں سے ضرور بات کرے گا۔حکومت اب تک پالیسی امور میں اپوزیشن کی کسی بھی نوع کی شمولیت کے حق میں نہیں رہی۔درپیش چیلنج بتاتے ہیں کہ یہ صورت حال بدانتظامی، بدترین نااہلی کی عکاسی کرتی ہے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے متعلق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے وعدہ کیا گیا ہے کہ صارفین سے پوری لاگت کی وصولی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے رجسٹریشن کی آخری تاریخ 30 اپریل گزرنے پر 3.2 ملین میں سے صرف 70 تاجروں نے رجسٹریشن کرائی ۔عوامی مینڈیٹ بوجوہ متنازع ہے ،حکومت اور اپوزیشن میں رابطہ نہیں۔حکومت اپنی کمزور سیاسی پوزیشن کو مذاکرات سے قوی بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی،پھر عالمی اداروں کے خدشات تو برقرار رہیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here