ویت نامی اور فلسطینی قوم کا موزانہ !!!

0
47
رمضان رانا
رمضان رانا

ویت نام پر پہلے فرانس1880سے1955تک قابض رہا جب فرائض کو پتہ چل گیا کہ اب وہ زیادہ دیر تک ویت نامی قوم کو غلام نہیں بنا سکتا تو فرانس نے ویتنام کالونی کو امریکہ کے ہاتھوں بیچ دیا جس کے بعد امریکہ1955سے1975تک جنوبی ویتنام پر قابض رہا جس کو دو ملین میٹ نامی قوم کے قتل وغارت گری اور اپنے تقریباً سات لاکھ فوجیوں کو مروانے کے بعد اپنی آخری فلائیٹ کے ذریعے بھاگنا پڑا جس طرح حال ہی میں امریکہ افغانستان سے اپنی آخری فلائیٹ میں بھاگنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ویتنام کو ایک ایسا بہادر اور نڈر غریب پرورٹیچر اور باکردار لیڈر ہوچی منہ ملا تھا جس نے ویتنام کی جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد ویت نام کو دنیا کا ایک آزاد اور خودمختار ترقی یافتہ ملکوں میں شامل کردیا ہے جس کی دنیا بھر میں مثال بہتت کم ملتی ہے سامراج نے ویت نام بھی شمالی اور جنوبی حصوں میں بانٹا ہوا تھا جس طرح ماضی میں مشرقی اور مغربی جرمنی، شمالی یمن اور جنوبی یمن یا پھر آج بھی شمالی کوریا اور جنوبی کوریا بنا ہوا ہے۔ جسکی ہوچی منہ نے نہ صرف جنگ لڑی تھی بلکہ شمالی اور جنوبی ویت نام کو متحد اور طاقت ور بنا دیا ہے۔ فلسطین جو ہزاروں سالوں سے مختلف ناموں سے ایک ریاست چلی آرہی ہے جس ماضی قدم میں اسرائیلیوں رومنوں، صلیبوں، یہودیوں اور مسلانوں کا قبضہ رہا ہے۔ جو آخری وقتوں میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا جس پر پہلی جنگ بعد انگریزوں نے قبضہ کرلیا جس کو برطانوی استعماریت نے یہودیوں کی ایک بنیاد پرست اور نسل پرست طبقہ صہونیت کو بیچ دیا جس طرح فرانسیسوں نے ویت نام کو امریکہ کے ہاتھوں بیچا تھا جس پر اسرائیل ایک مذہبی جنونی ریاست قائم کی گئی جس کے حکمرانوں کا نظریہ توسیع ہے کہ وہ دوبارہ سلطنت قائم کریں گے جس میں فلسطین، لبنان، شام، عراق اور مدینہ منورہ شامل ہوگا یہی وجوہات میں اسرائیلی ناجائز ریاست کے حکمرانوں نے اوسلو معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا کہ جس میں لاکھوں فلسطینی عوام مار دیئے گئے ہیں جبکہ گزشتہ چند ماہ میں چالیس ہزار فلسطینی عوام کا قتل عام ہوا ہے جس میں اکثریت بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کل فلسطینی قوم کی صلیبی مار رہے تھے آج صلیبی اور صہیونی دونوں مار رہے ہیں۔ کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کا خاتمہ کیا جائے تاکہ باقی ریاستوں پر آسانی سے قبضہ کیا جائے۔ جس سے قبل اول اور قبلہ دوم ووٹوں پر قبضہ ہوپائے۔ جو شاید خواب تو ہوسکتا ہے مگر حقیقت سے دور دور کا واسطہ نہیں جس کے لئے ڈیڑھ ارب مسلمان شہید ہونے کے مہمان وقت تیار رہتے ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں اسرائیل کیخلاف احتجاجات جاری ہیں جس کی لپیٹ میں امریکی سینکڑوں یونیورسٹیاں اور کالجز آچکے ہیں جو جس کے طلبا اور اساتذہ دونوں اسرائیل کی قتل وغارت گری کے خلاف پرزور احتجاج کر رہے ہیں۔ جس کی بنا پر امریکہ نے اسرائیل کی فی الحال اسلحہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ میں دو تہائی ملکوں نے قرار داد کے ذریعے فلسطین کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کرلیا ہے۔ جس کا پہلے بھی اوسلو معاہدے میں سب کچھ طے پا چکا ہے۔ جس پر شاید امریکی برطانوی اور فرانسیسی صلیبی نسلوں کے حکمرانوں کو دھچکا لگا ہے کہ دنیا کی اکثریت فلسطین کو دوبارہ ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر رہی ہے۔ جس طرح ماضی میں نو آبادیاتی نظام کے ہاتھوں مقبوضہ ریاستوں کو اقوام متحدہ نے تسلیم کیا تھا۔بہرحال اسرائیلی صہیونی اور فرعونی حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی قرار داد کی پروہ کیئے بغیر اپنی قتل وغارت گری جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نمائندے نے قرار داد کو اقوام متحدہ کے ہال میں پھاڑ کر ڈیڑھ سو ممالک کے نمائندگان کے منہ پر ماری ہے جو دنیا بھرکے آزادی اور خودمختاری کے پیروکاروں پر ناگوارا گزارا ہے کہ اسرائیل وہ عمل کر رہا ہے جس طرح ماضی قدیم میں فرعون یا پھر قاضی قریب میں ہٹلر نے انسانیت کے خلاف کیا تھا جس میں پہلے خصوصاً بچوں کو مارا گیا تھا بعدازاں انسانوں کو مارا گیا۔ آج فلسطینی عوام کو مارا جارہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here