فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! سیّدہ کائنات، خاتون جنت، رسول اللہۖ کی چوتھی شہزادی، حسنین کریمین رضی اللہ عنھا کی والدہ محترمہ اور علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیّدہ طیّبہ، طاہرہ، راکعہ، ساجدہ، عابدہ، زاہدہ، محفوظ فاطمتہ الزہراہ رضی اللہ عنھا کا وصال باکمال سن تین رمضان المبارک کو ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ عنھا نے ساری زندگی شریعت مطھرہ کی تابعداری میں گزاری کسی طرح کی کوئی خطا آپ سے سرزد نہیں ہوئی لہذا آپ رضی اللہ عنھا محفوظہ لمسن الحظا دنیا سے تشریف لے گئیں۔ عبادت وریاضت میں آپ ثاننی نہیں رکھتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنھا کا نام فاطمہ رکھنے کی وجہ حضورۖ نے خود بیان فرمائی ہے، فرمایا: میں نے اپنی بیٹی کا نام ”فاطمہ” اس لئے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کا ادب واحترام کرنے والوں کو دوزخ سے بچا لیا ہے فاطمہ کا لفظ فطم سے ہے جس کا معنیٰ جدا کرنا ہے اور اس کا مفہوم اس طرح بھی ہے کہ آپ دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے تعلق نہ رکھتی تھیں۔ آپ کے القابات میں سے ایک لقب بتول بھی ہے آپ کو بتول اس لئے کہا جاتا ہے کہ بتول بتل سے ہے۔ اس کا معنی ہے کاٹنا، جدا کرنا، کیونکہ آپ فضلیت وطہارت کے اعتبار سے دنیا کی تمام عورتوں سے جداہیں۔ علامہ تاج الدین سبکی رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق آپ کی شان حضرت مریم رضی اللہ عنھا سے بھی اس وجہ سے زیادہ ہے کہ آپ حضورۖ کے جسم اقدس کا حصہ ہیں جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ حضورۖ نے فرمایا: اے فاطمہ! تو اس فضلیت سے خوش نہیں کہ تو جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔ حضورۖ نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور فاطمہ مجھے سب سے پیاری ہے۔ اس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ عورتوں میں حضورۖ کو سب سے پیاری فاطمہ تھیں اور مردوں میں ان کے شوہر علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ عنھما(مشکوٰة شریف، الاستیعاب) زہراء بھی آپ کا مشہور لقب ہے جس کا معنیٰ جنت کی کلی ہے۔ آپ کا یہ لقب اس لئے ہے کہ آپ کے ہاں حسین وحسین رضی اللہ عنھا کی پیدائش عصر کے بعد ہوئی اور آپ چونکہ حیض ونفا میں سے پاک تھیں اس لئے آپ نے وہ عصر بھی پڑھی اور مغرب بھی یعنی آپ کی پوری زندگی میں ایک نماز بھی قضا نہ ہوئی اور نہ چھوٹی حدیث شریف میں ہے کہ حضورۖ نے فرمایا کہ میری بٹی فاطمہ حور ہے انسانی جسے کبھی حیض نہیں آتا(نسائی شریف) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا بچپن ہی سے سادہ طبیعت رکھتی تھیں۔ دیگر بہن بھائی اگر کھیل میں بھی مصروف ہوتے تو آپ ا پنی امی جان حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنھا کے پاس بیٹھی رہتی تھیں۔ حضورۖ کی باری اولاد سے آپ کی فضلیت اس لحاظ سے بھی زیادہ ہے کہ آپ اس وقت پیدا ہوئیں کہ جب حضورۖ نے نبوت کا اعلان فرما دیا تھا۔ قریش کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے اور قرآن نازل ہو رہا تھا۔
وہ ہسنتی تھیں تو فطرت بے خودی میں مسکراتی تھی
وہ روتی تھیں تو ساری کائنات آنسو بہاتی تھی
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا جب اپنی امی جان حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا کے بطن اطہر میں تشریف لائیں تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نو ماہ تک(جنت کی) خوشبو آتی رہی اور جب آپ پیدا ہوئیں تو یہ خوشبو ادھر سے ختم ہوگئی مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے پھر بھی آتی رہی۔ جس سے پتا چل گیا کہ یہ اسی جنت کی کلی کی خوشبو تھی۔
ہمارے آقاۖ کی شان یہ ہے کہ آپ آسمانوں کی طرف تشریف لے جائیں تو آسمانوں کے فرشتے کھڑے ہو کر آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں جلوہ گرہوں تو سارے نبی کھڑے ہوجائیں علیھم السّلام لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ جب حضورۖ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضورۖ کھڑے ہو کر اپنی بیٹی کا استقبال فرماتے، بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اور حضورۖ بھی جب اپنی اس پیاری بیٹی کے ہاں تشریف لے جاتے وہ بھی یہی سلوک کرتیں۔(ترمذی شریف، مستدرک ج٣ص4)حضورۖ جب بھی کہیں غزوہ میں یا کسی سفر میں تشریف لے جاتے تو جاتے وقت سب سے آخر میں اور واپسی پر سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی الہ عنھا کے گھر تشریف لاتے تاکہ جدائی کم سے کم ہو۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شادی بھی ہوگئی تو حضورۖ روزانہ دو مرتبہ اپنی بیٹی کے پاس تشریف لے جاتے اور مکان ذرا دور ہونے کی وجہ سے حضور علیہ السّلام کی بارگاہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے عرض کیا گیا! ہمارے پاس مکان خریدنے کے لئے تو رقم نہیں ہے۔ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ کا مکان خالی ہے اور آپ کے قریب بھی ہے وہ ہمیں مانگ دیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے مانگتے ہوئے تو حیاء آتی ہے۔ صحابی کو پتا چلا تو انہوں نے بلامعاوضہ ہی پیش کردیا۔ پھر نبی پاکۖ کی قربت میں رہنے لگیں تاکہ آنے جانے میں آسانی ہو۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے سیدہ رضی اللہ عنھا کو بہت بڑا مقام عطا فرمایا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے اور ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی چادر تطھیر کا فیضان عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭