ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں نے سندھ جنوبی پنجاب، بلوچستان اور پختونخواہ کی عوام کو بے حال کردیا ہے ،دوسری طرف سیاسی کشمکش اور تنائو دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان بقول انکے ہی دن بدن خطرناک ہوتے چلے جارہے ہیں۔ افواج کی قیادت ہو یا عدلیہ انکی متعدد بار تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے جبکہ افواج پاکستان کے جوان سیلاب میں عوام کو بچانے کی کاوشوں میں دستہ اول کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن تحریک انصاف تمام قومی اداروں اور سیاسی جماعتوں سے نبزد آزما ہیں اور سیلاب متاثرین سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے، پنجاب اور پختونخواہ کے وزراء اعلیٰ بھی خان صاحب کے جلسوں ،جلوسوں کے انتظامات میں زیادہ مصروف ہیں جبکہ انکا فرض تو یہ بنتا ہے کہ سیلاب متاثرین کے امدادی انتظامات کی نگرانی کریں۔ عوام جس عذاب میں مبتلا ہے انہیں تو اس عذاب سے نجات دلوائیں۔ سیاست بعد میں بھی ہوتی رہے گی لیکن بدقسمتی سے عمرانی سیاست کا محور ملک کے آئندہ فوجی سربراہ کی تقرری کے گرد گھوم رہا ہے کیونکہ خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کوئی اسے جنرل کی تقرری ہوگئی جو انکی کمزوریوں سے واقف ہیں تو انکی قلعی کھل جائیگی اور پھر انکے لئے دوبارہ منتخب ہونا تو دور کی بات ہے انکا نااہل ہونا نوشہ دیوار بن جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے کھل کر موجودہ قیادت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ آنے والی تقرری پر موجودہ سربراہ کا اثر انداز ہونا معمول کی بات ہے۔ جن چار افراد کا ذکر وہ بار بار اپنی تقاریر میں کرتے ہیں جو بقول ان کے ان کو فارغ کرنے کی سازش میں شریک ہیں، یہ بھی ایک نفسیاتی دبائو کو بڑھانے کا حربہ ہے لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جن لوگوں سے وہ ٹکر لے رہے ہیں وہ اس علم میں مکمل مہارت رکھتے ہیں جن کی رہنمائی میں خان اپنی حکمت عملی جوڑ رہے ہیں ،ان کے بھی استاد ہیں وہ جن سے ٹکر لینے کا سوچ رہے ہیں، مخفی اور ذومعنی بات اس لئے رکھی جارہی ہے کہ مناسب نہیں کہ اس موقعہ پر اہم ترین اداروں کے معاملات کو کھل کر گفتگو کا موضوع بنایا جائے۔ ہر ذی شعور انسان سوچ سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جسکا ماضی داغدار ہو جسکے خلاف کئی مقدمات عدالتوں میں زیر سماعتت ہوں وہ اہم اداروں کے خلاف عوامی اجتماعات میں ایسے کھل کر باتیں کر رہی ہو تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بیرونی طاقتوں کی گارنٹی ہے جس پر بھرا ہے اتراتا بنا ہے شاہ کا صاحب! غیر قانونی اور فارن فنڈنگ کے مقدمات اور فراہم کردہ ثبوت اس امر کی دلیل ہے اور یہ مقدمات نہ آج برسراقتدار حکومت نے کئے تھے نہ ہی موجودہ فوجی قیادت کا اس میں کچھ لینا دینا ہے کیونکہ ان مقدمات پر کارروائی ایک دہائی(دس سال) پر محیط عرصہ میں وقوع پذیر بنی ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی پیش گوئی کردی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کا شیرازہ بکھرنے کو ہے اور اگر ایسا ہوا تو وہDIRTYیا غلیظ انجام ہوگا۔ ایسے وقت میں کوئی بھی محب وطن یہی سوچنے پر مجبور ہوگا کہ سر جوڑ کے بیٹھا جانے بجائے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی سیاسی دکان کو چمکانے کے کسی بھی گھر پر مشکل وقت آتا ہے تو مکین اپنے تنازعات بھول کر گھر کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں نہ کہ نفرت کی آگ کو بڑھکا کہ اپنی آنا کی تسکین کرنے میں مصروف ہوجائیں۔ افواج پاکستان کی نئی قیادت کے متعلق فیصلے کو مزید التوا میں ڈالنے کے بجائے جلد ہونا چاہئے یا اگر تو موجودہ قیادت کی توسیع ہونی ہے تو اس کا بھی فیصلہ جلد ہی ہوجانا چاہئے تاکہ عمران خان کو اس موضوع پر زیادہ بات کرنے کا موقعہ نہیں ملے اور وہ زیادہ خطرناک ہونے کی جسارت نہ کریں نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے عمل کو بھی شروع ہونا چاہئے تاکہ مستقبل قریب کی آنے والی صورت واضع ہوجائے تاکہ اندرونی اور بیرونی طاقتوں کو معلوم ہوجائے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور اپنے تنازعات ہم بغیر خوبی سلجھانے کی اہلیت اور ہمت رکھتے نہیں۔
٭٭٭٭٭