قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم!!!

0
108
جاوید رانا

آج کالم لکھتے ہوئے ہمیں مرزا غالب کے وہ اشعار شدت سے یاد آرہے ہیں جو انہوں نے دلی کی بربادی پر یورپ کے ساکنوں سے مخاطب ہو کر کہے تھے!
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے جہاں منتخب ہی روزگار کے
اس کو فلک نے لُوٹ کے برباد کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے
ان اشعار میں لفظ دلی کو کراچی سے اور فلک کو حکمرانوں، رہنمائوں سے تبدیل کر لیں اور بالخصوص حالیہ بارشوں کے تناظر میں، کبھی عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلائے جانے والے کراچی کی ابتر بلکہ بدترین صورتحال کا جائزہ لیں تو متذکرہ بالا اشعار سے کراچی کا حوالہ واضح ہو جائیگا۔ دلی صدیوں سے غیر منقسم ہندوستان اور برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت کا دارالخلافہ رہا ہے جبکہ کراچی قیام پاکستان کے بعد پہلا دارالحکومت اور اسلام آباد کے درالخلافہ بننے کے بعد سندھ کا دارالحکومت اور معاشی، تجارتی و کاروباری حوالے سے وطن عزیز کے معاشی حب اور دارلخلافے کی پہچان رکھتا ہے۔ دلی اور کراچی کی ایک اور مماثلت یہ ہے کہ دلی کو بیرونی حملہ سات بار بیرونی حملہ آوروں اور توسیع پسندوں نے اُجاڑا تو کراچی کو وطن کے ہی مفاد پرستوں، حکمرانی کے شیدائیوں اور لٹیروں نے ستر برسوں میں بار بار اُجاڑا ہے، گویا گھر کے چراغوں سے ہی کراچی کے نصیب میں بربادی لکھی جاتی رہی ہے۔ حالیہ قیامت خیز و طوفانی بارشوں سے کراچی کی جو ناگفتہ بہ صورتحال ہوئی ہے، اس سے ان ساری حکومتوں اور ذمہ داروں کا پول کُھل گیا ہے جو کراچی سمیت سندھ پر کئی عشروں سے برسر اقتدار ہیں اور شہر کی ترقی کے دعویدار بنتے ہیں۔ گزشتہ پچاس سالوں میں متعدد بار اور 14 برسوں سے صوبے میں مسند اقتدار پر براجمان پیپلزپارٹی ہو یا سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی کے دعویدار ایم کیو ایم کے ذمہ دار نمائشی اور مفاداتی منصوبوں کی آڑ میں اپنا ہی بھلا کرتے رہے ہیں کراچی و سندھ کا جو بیڑہ غرق کیا گیا ہے وہ موجودہ بارشوں میں کُھل کر سامنے آگیا ہے۔
ایک وقت وہ تھا کہ کراچی کا شمار دنیا کے بہترین و قابل دید شہروں میں ہوتا تھا، ملک بھر سے ہی نہیں دنیا بھر سے لوگ اس شہر میں آتے تھے اور روشنیوں و شہروں کی دلہن کراچی کی خوبصورتی و ترقی کے گُن گاتے اور یہاں قیام و ذریعہ روزگار کو اپنے مستقبل کی بہتری کی ضمانت سمجھتے تھے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور کسی بھی منصوبہ بندی و عمل کے بغیر جہاں یہ شہر تعمیرات کا جنگل بنتا چلا گیا وہیں اس کے نام نہاد دعویداروں نے شہر کی ترقی کے نام پر اوور ہیڈ، انڈر پاس اور تعمیرات کے ڈھیر لگا دیئے۔ بڑے بڑے منصوبوں کے بلند و بانگ اعلانات و دعوے کر دیئے لیکن اس جانب کوئی توجہ نہ دی، کسی قسم کے احتیاطی اقدامات، انفراسٹرکچر کی بہتری اور مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل پر توجہ دینے کے برعکس مال بنانے اور متعلقہ اداروں و سوسائیٹیز کی ملی بھگت سے کرپشن کا بازار گرم رہا، کسی بھی قسم کی متوقع یا غیر متوقع آفات یا انہونی سے نپٹنے کیلئے زبانی کلامی دعوے ہی کئے جاتے رہے لیکن عمل ناپید رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ کراچی آج کھنڈر بن چکا ہے۔ حالیہ بارش میں نشیبی علاقے تو کجا شہر کے پوش ترین علاقے، اہم ترین شاہراہیں سمیت پورا شہر پانی میں ڈُوب چکا ہے، بجلی کے تار گرنے سے متعدد ہلاکتیں رونما ہو چکی ہیں۔ افتاد سے نپٹنے کیلئے فوج مدد کیلئے آئی ہے اور 14 سال سے اقتدار پر قابض حکمران اور کراچی کے دعویدار محض د نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ کراچی کی اس صورتحال پر کہ جب اس ابتری سے معیشت و تجارت پر بہت منفی اثر پڑا ہے، امپورٹڈ حکومت کی جانب سے بھی کوئی تشویش یا عملی اقدامات کی صورت سامنے نہیں آئی ہے اور آئے بھی کیسے کہ امپورٹڈ حکومت کو تو اپنا اقتدار بچانے کی فکر ہے کہ 17 جولائی کے پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتیجے پر صرف پنجاب ہی نہیں وفاق میں بھی ان کے اقتدار کا دارومدار ہے۔ دوسری جانب کراچی سے 14 اراکین قومی اسمبلی کی حامل پی ٹی آئی بھی ضمنی انتخاب جیتنے کے بخار میں مبتلا ہے اور کپتان سمیت سندھ کے صدر علی زیدی و دیگر صرف اور صرف احتجاجی بیانات اور زرداری و ایم کیو ایم کو ذلیل کرنے اور ہدف بنانے تک محدود ہیں۔ گویا کراچی اور بارشوں سے متاثر شہروں کے عوام سے زیادہ اہم سب کیلئے ضمنی انتخاب اور اقتدار ہے۔
ہماری 75 سالہ تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ عوام کی اہمیت محض ان سے ووٹ حاصل کرنے تک رہتی ہے جبکہ درحقیقت عوام کی حمایت اور رائے دہندگی اقتدار کے حصول کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن، والا معاملہ ہوتا ہے اور اس میں متعلقہ آئینی، انتظامی، سیکورٹی حتیٰ کہ بعض اوقات جوڈیشل اداروں کا بھی اشتراک ہوتا ہے۔ کم از کم 1977ء سے 2018ء تک کا جائزہ لیں تو یہی سب کچھ نظر آتا ہے۔ عوام کسی کے بھی ساتھ ہوں، مقبولیت کسی کی بھی کتنی ہی ہو نتائج اسی فارمولے کے تحت آتے ہیں جس کا تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے۔ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے حوالے سے بادی النظر میں عمران خان عوامی حمایت، مقبولیت اور سپورٹ تاریخ کے نئے ریکارڈ بنا رہا ہے لیکن تاریخی جلسوں، مخالفین کیخلاف عوام کے انفرادی و اجتماعی رد عمل کے باوجود یہ خدشات و تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں کہ نتائج برعکس ہوں۔ کپتان اپنی تمام تر توانائیوں، عزم و مضبوط بیانیئے اور ساتھیوں، حمایتیوں کے ہمراہ جیت کیلئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ دوسری جانب 14 جماعتوں کا ن لیگ کی کامیابی کیلئے گٹھ ہر جائز و ناجائز حربہ، انتظامی و آئینی مشینری کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے، مہم جوئی کیلئے وفاقی و صوبائی وزراء کے انتخابی معرکے میں جھرلو پھیرنے اور کسی بھی طرح جیتنے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں لگا ہوا ہے۔
عمران خان کا بار بار الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد اور فیصلہ سازوں کو نیوٹرل رہنے کا اظہار بے معنی ہر گز نہیں۔ بہرحال ان سطور کے لکھے جاتے وقت ضمنی انتخابات کے انعقاد میں محض چند دن باقی رہ گئے ہیں، عمران خان کی حمایت کرنے والے جانے کتنے عمران ریاض خان،سمیع ابراہیم، ارشد شریف جیسے صحافیوں کو قید و بند، مارپیٹ،پابندیوں اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑیگا اور کس قدر عمران خان کے چاہنے والوں کا گلو بٹوں سے واسطہ پڑے گا۔ اللہ ہی جانتا ہے، البتہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس انتخابی معرکے کے نتائج ہر دو صورتوں میں ملک و عوام کے حق میں بہتری کی نوید نہیں دینگے نہ ہی کراچی یا دیگر شہروں کیلئے ثمر بار ہونگے۔
اے خدا رحم کہ فریاد کناں قلب حزیں
بے ثباتی کی کتھا کہتا رہے گا کب تک
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here