عمران کو گھر بھیجنے میں باجوہ کا کردار!!!

0
220
مجیب ایس لودھی

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کوئی ایک رات میں پیش آنے والی ہنگامی صورتحال نہیں ہے بلکہ کڑیوں کا ایک سلسلہ ہے جس پر غور کیا جائے تو منظر نامہ سامنے آتا ہے کہ کیسے اس ساری کہانی میں جنرل باجوہ نے کلیدی کر دار ادا کیا اور اس کی قیمت پاک فوج کو بطور ادارہ چکانا پڑ رہی ہے، کہانی کا آغاز 2019 سے ہوتا ہے جب سابق وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل باجوہ نے امریکہ کا دورہ کیا، اس موقع پر آرمی چیف کا پینٹاگون میں فقید المثال استقبال کیا گیا ،21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی جبکہ اس کے برعکس سابق وز یر اعظم عمران خان کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔
کہانی کی دوسری کڑی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ہٹانے سے جڑتی ہے، جب آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے جنرل فیض کو عہدے سے ہٹانے پر وزیر اعظم سے مشاورت کی گئی تو معاملات کافی روز تک تعطل کا شکار ہے آخر کاروزیراعظم نے آرمی چیف کو جنرل فیض کو ہٹانے کی اجازت دی تو جنرل فیض کو کور کمانڈر پشاورتعینات کر دیا لیکن اس دوران سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ تقرر وتبادلے کے بعد کافی روزگزر جانے کے باوجود نومنتخب آئی ایس آئی کے سربراہ اپنے آفس کو جوائن کرنے سے قاصر تھے، اس سارے معاملے پر فوج میں برہمی کا اظہار سامنے آیا کہ آخر رضامندی کے باوجود حکومت نوٹیفکیشن جاری کرنے میں تاخیری حربے کیوں استعمال کر رہی ہے؟ اس موقع پر بھی سابق حکومت اور فوج کے تعلقات کافی خراب رہے اور اس کے بعد تیسری کڑی امریکہ کے عہد یدار ڈونلڈلو کی جانب سے پاکستان ملٹری اتاشی کولکھا گیا خط تھا جس کو آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو بھیجا گیا اور سارے معاملے پر فوج میں اندرونی مشاورت رہی تاہم حکومت اس معاملے سے بے خبر رہی ، سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ دونوں اس خط سے لاعلم تھے کیونکہ دونوں سے یہ خط خفیہ رکھا گیا تھا پھر پاکستانی سفیراسد مجید کے ذریعے یہ معاملہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی تک پہنچا تو انھوں نے بھی فوج کی جانب سے معاملہ چھپانے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ عمران خان اور شاہ محمود نے یہ خط عوامی جلسوں میں لہرانا شروع کر دیا، اصل میں یہ خط پاک فوج کی طرف لہرایا جارہا تھا جو کہ تمام معاملہ خفیہ رکھنا چاہتے تھے مگر ایسا نہیں ہوسکا ۔ عمران خان نے اپنے جلسوں کے دوران جب میر جعفر اور میر صادق کا ذکر کر نا شروع کیا تو پاک فوج سے حکومت کے تعلقات میں سرد مہری آئی اور معاملات بگڑتے چلے گئے ، یہی کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں سے معاملات خراب ہونا شروع ہوئے ، حکومت کا مطالبہ تھا کہ خط کو پبلک کیا جائے لیکن سفارتی خط و کتابت کو اس طرح پبلک نہیں کیا جا سکتا تھا، دوسری طرف حکومت نے گرتی حکومت کو دیکھتے ہوئے اس خط کو وجہ بتانے کی حکمت عملی اپنائی کیونکہ نہ تو یہ خط پبلک ہونے والا تھا اور نہ ہی میڈیا میں آنے والا تھا کہ اس میں کیا لکھا گیا ہے اور کیا نہیں اور حکومت نے اس خط کو اپنی سیاست کا محور بنالیا۔ فوج کے دباؤ کے بعد پاکستانی عدلیہ نے بھی حکومت گرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے اجلاس کو ملتوی کیے جانے کے بعد عدالتوں کو رات گئے کھولا گیا اور قومی اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد کی کاروائی پرعملدرآمد کرا گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک فوج کے دباؤ کے بغیر عدلیہ کا رات گئے عدالتیں کھولنا بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، عدالت عظمیٰ کا اتوار کے روز کھلنا آرٹیکل 69 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا، ساری صورتحال کے تناظر میں سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے جنرل باجوہ کو اس سازش کا مرکزی کردار قرار دیا گیا اور زور دیا گیا کہ جنرل باجوہ کو نومبر کی بجائے رواں ماہ بھی اقتدار کو الوداع کہہ دینا چاہئے کیونکہ ان کے انفرادی کردار کی وجہ سے بحیثیت مجموعی پاک فوج کی بطور ادارہ تذلیل کی گئی ہے، عوامی سطح پر پہلی مرتبہ اس قدر غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان امریکی سازش کی مہم کا سہارا لے کر دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں تو اس کاجواب نفی میں نظر آتا ہے کیونکہ فوج دوبارہ رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ ایک ایسا حکمران ملک پرمسلط کیا جائے جوکہ انفرادی رائے کو اہمیت دیتا ہو ، ذرائع کے مطابق پاک فوج کے اندر سے بھی کچھ کورکمانڈ راوراعلیٰ عہدیداران جنرل باجوہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کر سکتے ہیںکیونکہ پاک فوج مزید عوامی تنقید کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here