ان سیاستدانوں کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ اقتدار میں آنے کے لئے اپوزیشن دور میں انتہائی سنجیدہ اور مہذب باتیں کرتے ہیں، اخلاقیات کا درس اور رواداری کی مثالیں خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں، دل چاہتا ہے کہ یہی ہمارے حکمران بنیں مگر خدا جانے کیا ہوتا ہے ،حلف اٹھاتے ہیں ان کی اخلاقیات اور رواداری کا جنازہ نکل جاتا ہے۔جن باتوں پر اپوزیشن کے دور میں ڈٹ کر مخالفت کی جاتی ہے حکمران بنتے ہیں کیوں ان کی حقیقت پر وضاحتیں شروع کردی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج حکومت چاہ کر بھی پیٹرول اور گیس کی قیمتیں بڑھا نہیں پا رہی، کیونکہ یہی لوگ سابقہ حکومت جماعت کو ان اقدامات پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے، تو پھر یہ بات جائز ہے کہ جب یہ آپ کی مجبوری ہے تو سابقہ حکمرانوں کی مجبوری تھی۔مگر افسوس کہ یہی وہ نقطہ ہے جو ہمارے حکمران سمجھنے کو تیار نہیں۔ آج آپ نے انہیں وعدوں کی تکمیل کے لیے سعودی عرب اور یو اے ای کے دوروں کے دوران پہلے ہفتے ہی ان امدادی پیکجز جس پر بات چیت شروع کر دی گئیں جو ماضی میں امداد کہلاتے تھے، پاکستان سے میرے دوست قیصر فاروق نے مجھے نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کی ان دورں میں موجودگی کے طرف توجہ دلائی تو یہ درست ہے کہ جب آپ حکمرانوں کے آس پاس رہیں گے، صاحب وہ آپ کے کتنے ہی قریبی عزیز کیوں نہ ہو، تو یقینا طاقت میں ان کے ہونے کا فائدہ کسی نہ کسی صورت آپ کو بھی پہنچے گا، تو مستقبل میں یہ شکایت کرنا کہ ان سے سوال کیا گیا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، اس کی ایک مثال سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے بھی ذہن میں رکھنے چاہئیں کہ کس طرح فرح نامی خاتون نے عمران خان کی وزارت عظمیٰ اور ان کی اہلیہ کی طاقت کا اپنے وسائل بڑھانے کے لئے استعمال کیا۔دوسری طرف ایک اور نقطہ جو زیر بحث ہے وہ پاکستان میں مذہبی کارڈ کے استعمال کے حوالے سے ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت واقعی مکس اچار ہے، جس میں کوئی کسی کا یار نہیں۔ ابھی حکومت ملے شاید مہینہ نہیں ہوا، مگر جس طرح مذہب کارڈ کا استعمال پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت کی جانب سے کھیلا جانے لگا ہے، ایسی حرکتوں سے پاکستان کے سیاسی نظام پر کچھ لوگوں کا رہا سہا ایمان بھی ختم ہوجائے گا۔
مدینہ شریف میں روضہ رسولۖ پر ہونے والی نازیبا حرکت ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے، جس کے لیے کوئی توجیہ یا اشارہ بھی قابل قبول نہیں مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس بات کا فیصلہ بھی اللہ کے حضور چھوڑ دیا جاتا، یا سعودی حکومت اپنے طور پر جو بھی اقدامات اٹھاتی۔بلاشبہ یہ بات نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ یہ صرف چند شیطانی لوگ ہیں جو اس طرح کی حرکتیں کر کے پاکستان کا نام دنیا میں بد نام کر رہے ہیں مگر درگزر کر دیا جاتا، فیصل آباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں مقدمات درج کرنے کی بجائے یہ بھی عوامی عدالت پر فیصلہ چھوڑ دیا جاتا تو ہمارے سیاسی پختگی سوچ کو شاید دوام ملتا۔
موجودہ حکومت نے جب دیکھ لیا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں نے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ پاکستان تحریک انصاف عہدیداروں کو بھی وقت گزرنے کے بعد اپنی اس گھٹیا حرکت کا احساس ہوگیا تو اس کے بعد طاقت کا یوں اظہار کرنا میری نظر میں اس اتحاد کو بے وقعت کرے گا۔
تاریخ سے نہ سیکھنے کا یہ تاثر اب کی بار مضبوط ہوگیا تو پھر لوگوں کو شاید یہ پروا ختم ہو جائے کہ پاکستان میں کوئی سیاستدان مسند اقتدار پر ہے یا کوئی فوجی جنرل ہے۔
٭٭٭