علم کا حصول تو ہر زمانے میں ہی مشکل رہا ہے خاص کر غریبوں کے لئے لیکن جو لوگ اس کی جستجو میں لگ جاتے ہیں اللہ ان کے لئے اس کی راہیں آسان کر دیتا ہے ، ان کے لئے ذرائع اور وسائل کے مواقع بھی فراہم کردیتا ہے پہلے زمانے میں کاغذ، قلم روشنی ،بجلی ،وقت ،استاد کا حصول مشکل تھا زمانہ بدلتا گیا علم کے حصول کے طریقے بدلتے گئے اسکول کالج یونیورسٹی کا قیام وجود میں آیا اور ان کے درمیان مقابلے شروع ہوگئے ان کے لیویلز اور ان کی کیٹیگری بنتی چلی گئیں،بچوں کو اسکالرشپ دیا جانے لگا پھر بچوں کے آئی کیو ٹیسٹ کا زمانہ آگیا ،یونیورسٹیز بچوں کو پک کرنے لگی بچے علم کے حصول کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے آنے اور جانے لگے جہاں بیرون ملک تجارت اور نوکریوں کے لیے لوگ منتقل ہوئے وہی علم کے حصول کے لئے بھی بچوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا عام رواج ہو گیا اسی دوران سائنسی ترقی بھی اپنے مدارج طے کرتے رہے سیل فون کمپیوٹر عام ہونے لگا ان کے ذریعے فیس بک ٹویٹر یوٹیوب انسٹاگرام لوگوں کے ذہنوں اور دلوں پر حکومت کرنے لگے اور آہستہ آہستہ مختلف طرح کے علوم کے حصول کا ذریعہ ہی بننے لگا یہاں تک کہ دینی علوم کے حصول کا ذریعہ بھی لیکن دیکھا جائے تو یہ ایک مہنگا ترین ذریعے تعلم ہے ہر عام و خاص اس سے آسانی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ہے ،اس کے ذریعے علم حاصل کرنا ایک لگژری میں آتا ہے الحمدللہ یہ لگژری ہم کو اور آپ کو اور بہت سارے دوسرے لوگوں کو حاصل ہے ایک معمولی سے فنگر ٹپ سے ہم دنیا جہان کے نجانے کتنی طرح کے علوم حاصل کر سکتے ہیں دنیاوی ہو یا دینی ہوں، الحمدللہ ہم کو اورآپ کو یہ سہولت حاصل ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہے کہ کون کون سے علوم کا حصول ہمارے لئے جائز اور حلال ہے اور کس طرح کے علم میں ہمیں سبقت کرنی چاہئے، اس کے لیے ہم اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے لیکن یہ شکر گزاری کی کیفیت کیسے پیدا کر سکتے ہیں کن شکورا کی کیٹگری میں کیسے آ سکتے ہیں کوئی بھی علم جو ہم اللہ کی رضا کے لئے حاصل کرتے ہیں خاص کر کے دینی علم کا حصول ایک بہت بڑی نعمت ہے جو کسی کو نصیب ہوتی ہے ہم اپنے اندرکیسے شکر گزاری کی کیفیت اور خصوصیات پیدا کرسکتے ہیں اس کے لئے ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔علم کے حصول میں جو وقت ،صلاحیت ،مال ،ذہانت ہم لگاتیہیں جس کی بدولت ہماری شخصیت وکردار میں جو عمل کی فصل لہلاتی ہے وہ بھی اللہ کے خزانوں میں سے ہیکہ اللہ نے ہمیں وہ ذرائع وسآئل عطا کئے کہ ہم آن لائن کورس کا حصہ بن سکتے ہیں اس کے لئے ہم سب کو اپنے اپنے والدین کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے ہمیں یہ سہولت دی ہماری فیس ادا کی اور اگر نہیں بھی کی ہیں تو بھی جائے نماز پر بیٹھ کر ان کے لیے دعائیں کریں کہ انہوں نے ہمیں لکھنا پڑھنا سکھایا اسکول کالج کی تعلیم دلائی ماڈرن تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا اور آج ہم اس قابل ہوئے کے آن لائن علوم کا حصول ہمارے لئے آسان ہوگیا اور ہم اس قابل ہوگئے کہ اس کے ذریعے گھر بیٹھے ہوئے بہت سارے علم کا احاطہ کر سکتے ہیں ہم سب کسی نہ کسی کی بیٹیاں اللہ ہمارے حصول علم کے زریعے ہمیں ہمارے والدین کیلئے بہترین صدقہ جاریہ بنائے امین۔ ہم میں سے جو خواتین اپنے شوہروں کی اجازت اور ان کی مدد سے گھر بیٹھے ہوئے آن لائن کورسز کا فائدہ اٹھاتی ہیں انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنے شوہروں کی شکر گزار بنیں اس لئے کہ ان کی مدد ہمارے ساتھ ہوتی ہے وہ ہماری فیس ادا کرتے ہیں اگر کسی کینہ بھی کریں ! ہم خود اپنے اخراجات اٹھاتے ہوں تو بھی ہر بیوی کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کا شکر ادا کرے اور بار بار کرے اس لئے کہ یہ وقت گھر والوں کا تھا اس میں سے اس نے وقت نکال کر ہمیں لکھنے پڑھنے کی اجازت دی ،دین کا علم ہمارے لیے آسان کیا ،راہیں کھولی، ہمارے مددگار بنے منع بھی کرسکتے تھے ہو سکتا ہے کہ پہلے شکریہ ادا کر چکیہوں لیکن بار بار تجدید کرنے سے محبت اور الفت میں اضافہ ہوتا ہے کہ آپ اس کورس کو کرنے میں مدد گار ثابت ہوئے آپ نے مجھے اجازت دیا ہمیں مورلی اور فزیکلی دونوں طریقے سے ان کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہیے اور یہ ان کا حق بھی ہے خوشگوار احساسات میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے ہونا چاہیے یہ بھی شکریہ کا ایک طریقہ ہے ان کورسز کا سب سے زیادہ اثرہماری اپنی زندگی پر اور ہماری فیملی کے تعلقات پر آنا چاہیے کبھی کبھی ہم کورسز کرنے والے ان میں گم ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو بتانے یا مرعوب کرنے میں لگ جاتے ہیں اور اپنی ازدواجی زندگی کا ستیاناس مارلیتے ہیں جن کے ہم پر سب سے زیادہ حق وق سب سے زیادہ احسانات ہوتے ہیں ہم انہیں ہی دور کر دیتے ہیں یا بے توجہ کر دیتے ہیں جو سب سے زیادہ ہمارے معاون و مددگار ہوتے ہیں اس کی مثال ایسے ہے جیسے چراغ تلے اندھیرا حالانکہ جب ہم علم سیکھ رہے ہیں اس کی روشنی سے سب سے زیادہ قریب والے کو منور ہونا چاہئے اکثراوقات شوہر کی طرف سے محبت کی روشنی منعکس ہونے میں کچھ وقت لگ جاتا ہے یا منعکس ہو کر اتنا زیادہ ہمارے قریب نہیں آتا تو سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ علم تو ہم حاصل کر رہے ہیں، کورس تو ہم کر رہے ہیں ،تو پہل بھی ہماری طرف سے ہی ہونا چاہیے، گہرا ء بھی ہماری فطرت میں آنا چاہیے ،شوہر اور بیوی کی محبت تو معاشرے کو مضبوط بنانے کا بہترین ذریعہ ہے ایک قدم آگے بڑھنے کی ہمیں ہی ضرورت ہے اور ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے اللہ ہمارے شوہروں کو بھی اس کی توفیق عطا کرے ایک دوسرے کو سپورٹ دینا بھی محبت اور کیئرکا ایک انداز ہوتا ہے اس لیے جوابی محبت کے انتظار میں بیٹھ کر اپنی نیکیوں کو ضائع نہ کریں بلکہ کن شکوراکی تصویر بن جائے پھل دار درخت ہی جھکتا ہے اور علم والے ہی درحقیقت اللہ سے ڈرتے ہیں اور بندوں کا حق ادا کرتے ہیں
پھر ہمیں ان ٹیچروں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے جو ہمیں پڑھاتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور ہم دنیا میں اس قابل ہوتے ہیں کہ جس دور میں رہ رہے ہیں اس کے ساتھ چلنے کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا ہو لہذا ان کا شکریہ ادا کرنا اور ان کو دعاں میں یاد رکھنا اس احسان کاحق ادا کرنے کے مترادف ہے جو علم سکھا کر انھوں نے ہم پر کیا ہیاس لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے لئے خصوصی دعائیں کریں اللہ تعالی سے ان کے علم میں اضافیکی ان کے کام میں سہولت، برکت اور آسانیوں کی دعا جنہوں نے ہمارے لیے آسانی اور سہولت مہیا کیا گھر بیٹھے ہمارے لئے دینی اور دنیاوی تمام علوم کے حصول کو آسان کر دیا ہیکچھ لوگ فرنٹ لائن پر کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ بیک لائن پر کام کرتے ہیں جو ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اس کے بعد کلاس کی شکل ہمارے سامنے آتی ہے جس سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں اور گھر بیٹھے علم کی پیاس بجھا سکتے ہیں اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہم بھی گھر بیٹھ کر اس سے دوسروں کو بھی مستفید کر سکتیہیں یعنی جو ہم سیکھتے ہیں وہ دوسروں کو سکھانے کی کوشش کریں ان لوگوں کو خصوصی دعاں میں یاد رکھیں جنھوں نییہ سارا انتظام کیا ہم یہ نہ سوچیں کہ ہم نے فیس دے کر ان کا حق ادا کر دیا بلکہ ان کو بھی اپنی خصوصی دعاں میں یاد رکھیں جنہوں نے ہاتھ پکڑ کر ہمیں اس کلاس میں لا بٹھایا جنہوں نے ہمیں اس کلاس کے لیے تیار کیا اور پھر جنہوں نے ہمیں پڑھایا بتایا سکھایا یہ سب لوگ ہماری دعاں کے حقدار ہیں اور یہ کہ ان کا شکریہ بھی ادا کرنا ہم پر واجب ہے جو لوگ بندوں کا شکر نہیں کرتے وہ خدا کاشکر بھی نہیں ادا کرتے اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ جو شکر ادا کرتا ہے ہم اس کو اور زیادہ عطا کرتے ہیں یہ شکر ہمارے لئے ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کلاس کو لینے میں آسانی اور سہولت کا موجب ہوگا انشا اللہ حصول علم کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے علم کو ہمارے لئے فتنہ نہ بنانا ہمارے لئے دنیا اور آخرت میں درجات کی بلندی کا باعث بنانا ہمارے علم و فہم کو برائیوں کا قلع قمہ کرنے ظلم جبر کو ختم کرکے بھلائیوں اور نیکیوں دور دورہ کرنے کاسبب بنانا امین یا رب العالمین
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس آن لائن میڈیا کو حصول علم کا ذریعہ کیوں بنائیں آن لائن کلاسس کیوں لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا آج کل دلوں اور دماغوں پر راج کررہا خواہ بچے ہوں بوڑھے ہوں یا جوان ، ان پڑھ ہوں یا تعلیم یافتہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ میڈیا بے حیائی اور فحاشی پھیلانے میں مگن ہے اور ہم سب اس میڈیا کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں تو یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ اس میڈیا کو ہم پوزیٹو کاموں کے لئے استعمال کریں اور اس کے اندر پوزیٹیویٹی اتنی بھر دے کہ نگیٹو چیزیں نظروں سے اوجھل ہوجائیں اور لوگ شعوری طور پر اس گندگی سے نفرت کرنے لگیں جو میڈیا پھیلانے کی کوشش کررہا ہے چاہے وہ کسی رنگ،نسل، یا مذہب کے لوگ ہوں اس کے دروازے بند کرنے کی کوشش کریں اور وہ لوگ جو اس میڈیا کو فضولیات ،لغویات، فہاشی عریانی ، وقت کی بربادی، ذہنی خرابی معاشرے کی تباہی و بربادی کے لئے استعمال کر رہے ہیں ان کو دیوار سے لگایا جا سکے ہمیں اتنا علم وفہم فراست وتقوی خوف خدا اور محبت خدا ہو کہ ہم بڑھ چڑھ کر اس پر اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کر کے نیکی بھلائی اورحق گوئی سے ان تمام گندگیوں کو دھو ڈالنے والے بن جائیں جن کا چلن معاشرے سے ہر خیر کو نکلتا جا رہا ہے خاندانی سسٹم کے ہر اصول پر ضرب لگا کر معاشرے کو مادر پدر آزاد بنانے کی کوشش میں مصروف ہے جن کے مقاصد میں ہر خیرنگل جانا اور ہر شر کو پروموٹ کرنا ہے لہٰذا ہمیں بھی کمر کس کر میدان میں اتر جانا چاہیے اور اس میڈیا وار کا جواب دینے کے لیے دین کو جتنازیادہ پروموٹ کر سکتے ہیں پھیلا سکتے ہیں غالب کر سکتے ہی نافذ کر سکتے ہیں ،اس کے لئے تن من دھن سے اس کام میں لگ جانا چاہئے کیونکہ ہمارے بچے ہمارے گھروں میں اغوا ہو رہے ہیں ،ہمارے دین پر اس میڈیا کے ذریعے چھاپے مارے جارہے ہیں لہٰذا نسل اور دین دونوں کی بقا کے لیے اس وقت اس میڈیا کے جنگل سے گزرنا اور اس کی صفاء ضروری ہے جہاں تک ہو سکے، سورہ العمران آخراآیت میں اللہ تعالی نیصابرو ورابطوا کاحکم فرمایا ہے یعنی جو کچھ میسر ہوصبر اور تحمل کے ساتھ ہر وقت دشمن کے شر سے بچنے کے لیے تیار ہو چوکنا رہو چاہے وہ کوئی بھی محاذ ہوں ہر محاذ پر جہاں جہاں دشمن اسلام کے خلاف چالیں چلیں دین کونیچا دکھانے کی کوشش کریں اور وہ چیز جس کو اللہ نے منع کیا ہے اس کو پھیلانے کی کوشش کریں اس کے لیے سینہ سپر ہو کر اللہ کے دین کو اللہ کی سرزمین پر غالب ونافذ کرنے کی کوشش میں لگے رہو اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ اس کاحق ادا کرسکیں اور اپنے استاد کی قدر کر سکیں جنہوں نے ہمارے لیے دروازے کھولے ہیں اللہ تعالی ان کے علم میں بھی اضافہ فرمائے اور ہمارے علم میں بھی اور ہمیں علم کو پھیلانے والا بنائے علم کی قدر کرنے والا بنائے اور ہماری زندگیوں میں علم کی فصل کو ہمیشہ لہلہاتا رکھے ہماری نسلوں میں علم کی فصل کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے ہماری نسلوں سے وہ کام لے لے جو دین کی سربلندی کے لیے ہوں امین !اس لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ جانے اور کیسے کیسے محاذ آئیں گے ہمارے آبا اجداد کو نہیں پتا تھا کہ ایک ایسا بھی محاذ ہو گا جس نام میڈیا وار ہوگا جن پر جنگ کرنی پڑے گی تو ہمیں بھی نہیں پتا ہے کہ آئندہ ہماری نسلوں کو کس کس طرح کی لڑای سے واسطہ پڑنے والا ہے اللہ تعالی انھیں طرح کیمعرکوں میں استقامت اورفتح و کامیابی نصیب کرے، آمین یا رب العالمین
٭٭٭