ارشد شریف اور آزاد صحافت !!!

0
204
مجیب ایس لودھی

صحافت ایک پیغمبری پیشہ ہے، یعنی حقائق کو اپنی اصل حالت میں عوام کے سامنے لانا بہت بڑی ذمہ داری ہے اوراکثر حکومتیں اس کی تاب نہیں لاپاتی ہیںاور پھر بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں جیسا کہ معروف اینکرپرسن ارشد شریف کے ساتھ ہوا، جوکہ بظور آزاد شہری، ایک آزاد ملک میں اپنی صحافت کو آزادی سے انجام نہیں دے سکے ، اس قدر دبائو ڈالا گیا کہ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور کینیا جیسے ملک میں چلے گئے جہاں ان کو گولی کا نشانہ بنایا گیا، پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ ان کے ناحق قتل پر غمگین اور غصے میں ہیں، نیویارک کی صحافی برادری بھی ارشد شریف کے قتل پر بہت غمزدہ ہے ، نیویارک کے بزنس مین راجہ عابد اور ان کے بیٹے یاسر عمار نے ارشد شریف کے لیے دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا جس میں نیویارک بھر کے پاکستانی صحافیوں ،اور پبلشرز کو مدعو کیا گیااور مرحوم کے ایصال و ثواب کیلئے دعا کی گئی۔
ارشد شریف کے قتل سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان میں سچ بولنا اور حقائق کو سامنے لانا اتنا خطرناک اور جان لیوا کیسے بن گیا ہے، معروف اینکرپرسن ارشد شریف جس طرح پاکستانی سیاست اور دیگر محرکات سے پردہ اٹھا رہے تھے وہ کئی نامور شخصیات کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا، جس کی وجہ سے اس پر مختلف ذرائع سے دبائو کو بڑھایا گیا،اطلاعات کے مطابق حکومتی شخصیات نے یو اے ای کی حکومت کو بھی اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ارشد شریف کو پاکستان ڈی پورٹ کرے، تاہم یو اے ای کی حکومت نے ارشد شریف کو کسی اور ملک منتقل ہونے کی مہلت دی تو ارشد شریف دبئی سے لندن منتقل ہوئے اور وہاں سے کینیا چلے گئے جوکہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ ارشد شریف کئی نامور سیاستدانوں کے ساتھ پاک فوج کے خلاف بھی سخت زبان استعمال کررہے تھے جس کی وجہ سے ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا، ارشد شریف کی جانب سے جو22اکتوبر کو ٹوئیٹ کی گئی اس میں وہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر عمران خان سے توشہ خانہ کے تحائف کی باز پرس کی جا رہی ہے تو آرمی چیف جنرل باجوہ سے توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف کے متعلق کیوں نہیں پوچھا جا رہا، اس حوالے سے انھوں نے اپنے وی لاگ میں عمران خان پر زور دیا کہ وہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی طرح سازشیوں کے نام عوام کے سامنے لائیں گے یا نہیں۔ ارشد شریف کی موت کا ذمہ دار براہ راست ملک کے سیکیورٹی اداروں ، جنرل باجوہ اور پاک فوج کو بھی قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ اس کے ساتھ مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے ، جس طرح مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ارشد شریف کے قتل پر طنزیہ ٹوئیٹ کی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے قتل پر کون کون سے عوامل کارفرما تھے۔ ارشد شریف اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے، اپنے والد اور بڑے بھائی کی وفات کے بعد وہ اپنے خاندان کی کفالت کا واحد سہارا تھے ، اپنے پانچ بچوں کے ساتھ اپنے بھائی کی ایک بیٹی کی کفالت بھی ان کے ذمہ تھی اور جس درندگی کے ساتھ ارشد شریف کو نشانہ بنایا گیا ،یہ ہمارے سیکیورٹی اداروں ، ارباب اختیار اور خود صحافی برادری کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے ، کہ آخر حقائق کو سامنے لانے پر صحافی برادری کے ساتھ ایسا رویہ کب تک روا رکھا جائے گا۔ ارشد شریف کو فائرنگ سے نشانہ بنانے کا یہ پہلا کیس نہیں ہے بلکہ اس سے قبل معروف صحافی اور اینکرپرسن حامد میرکو بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ موت کے منہ سے واپس آئے، میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ صحافی برادری اپنی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے بھی آواز بلند کرے ، پاکستان جیسے ملک میں صحافت اب بہت مشکل ہوگئی ہے ، ارشد شریف کے قتل پر صحافی برادری کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے ، اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کیا جائے جوکہ تمام معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے قتل کے اصل محرکات کو سامنے لائے۔ پاکستان میںسچ بولنے پر برہنہ کر کے تشدد کی سزا دی جاتی ہے اور اس کو اکثر صحافی برداشت کرتے ہیں،2019 سے 2021 کے درمیان پیکا یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت 2 درجن سے زائد پاکستانی صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے جبکہ 56 فیصد تعداد ان آن لائن صحافت کرنے والوں کی ہے جن کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان افراد میں سے تقریباً 70 فیصد کو گرفتار کیا گیا اور پیکا کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی جبکہ گرفتار ہونے والوں میں سے نصف کو مبینہ طور پر تحویل میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، اب ارباب اختیار کو سچ برداشت کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی نہ کہ اس کے خلاف محاذ کھڑا کرنا چاہئے، بدلتے وقت کے ساتھ ہمیں اپنی پالیسیوں اور رویوں کو بھی بدلنا چاہئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here