پاکستان کے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، صحافت میں نظریات مختلف ہونے کے باوجود کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی کی جان لے، مگر ہم یہ بات کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں انسانیت کہ وہ مقام ابھی نہیں مل پایا جس کے ہم صرف خواب دیکھتے ہیں۔ ماضی کئی صحافیوں کو تشدد، اغوا اور قتل کرنے جیسے واقعات سے بھرا پڑا ہے، ایسے واقعات پر اور کتنا رویا جائے، اور جانے کب تک رویا جائے گا۔ ان واقعات سے گزرنے کے سبب ان کی تلخیاں آج بھی میرے دل میں زندہ ہیں، کیا پاکستان کی دھرتی پر صحافی اسی طرح غیر محفوظ رہیں گے۔
لوگ صحافی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کو اُجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے مگر ایک صحافی کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کا ماتم کس کے سامنے کیا جائے۔یہ سچ ہے کہ پاکستان میں صحافت کرنا کوئی آسان کام نہیں، اپنے گھر کے چوک سے لے کر ملک کے صدر چوک تک آپ کو کسی بات پر بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لئے خطرناک ملکوں میں ہوتا ہیجہاں پر صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی میں لاتعداد مسائل اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان پریس فاونڈیشن کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو آپ صرف رپورٹ ہونے والے صحافی پر حملوں اور قتل ہونے والوں کی تعداد دیکھ کر حیران رہ جائیں۔
پاکستان میں حکومتوں میں آنے والے صحافیوں کو تحفظ دینے کے ہمیشہ بلند و بانگ دعوے کرتے رہے مگر جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کی طرح دیگر ایسے کئی بِل اسمبلی سے پاس ہوئے، میڈیا تنظیموں کے سامنے رکھے گئے مگر کوئی خاص پیش رفت نا ہو سکی جس کی وجہ سے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ صحافیوں کے تحفظ کے لئے حکومت سمیت میڈیا اداروں، متعلقہ حکومتی اداروں اور میڈیا تنظیموں کو مل کر کوئی ٹھوس حل نکالنا ہوگا اور اقدامات کرنے ہوں گے، جب تک صحافیوں کا تحفظ ممکن نہیں بنایا جاتا ،موثر قانون سازی نہیں ہوتی تب تک صحافی خطرات سے دوچار رہیں گے، جن سفید کاغذوں پر کالے کارناموں کی روداد لکھی جاتی ہیں، صحافی کے خون سے وہ ورق سرخ ہوتے رہیں گے۔
٭٭٭