نیویارک (پاکستان نیوز)ہر تیسرا شہری امریکہ کو من پسند ریاستوں میں تقسیم کرنے پر رضامند ہے ، مقامی کمپنی کے سروے نے تہلکہ مچا دیا جبکہ ری پبلیکن اکثریت کے آدھے سے زائد شہری جنوبی حصے کو ملک سے الگ کرنے کے خواہاں ہیں ، تفصیلات کے مطابق برائٹ لائن واچ کے سروے کے اعدادو شمار نے ملک میں تہلکہ مچا دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہر تیسراشہر ی امریکہ کی تقسیم کا خواہاں ہے ، کمپنی کی جانب سے سروے میں شریک 2700افراد کے سامنے پانچ ریاستوں کے ماڈل رکھے گئے جن پر سب نے اپنی رائے کا اظہار کیا ،اس میں پہلا آپشن پیسیفک ، کیلفورنیا ، واشنگٹن ، اوریجن ، ہوائی اور الاسکا کو الگ ملک بنانا ، دوسرا آپشن ماﺅنٹین اڈاہو ، مونٹانا ، ویومنگ ، اوتھا ، کولاراڈو ، نیوواڈا ، ایری زونا اور نیو میکسیکو کو الگ کرنا ، تیسرا آپشن جنوب میں ٹیکساس ، اوکلاہاما ، آرکنساس ، لوزیانا ، مسی سپی ، الاباما ، جارجیا ، فلوریڈا ، جنوبی کیرولینا ، شمالی کیرولینا ، ورجینیا ، کنٹکی کو الگ کرنا ، چوتھے آپشن کے مطابق ملک کے ہارٹ لینڈ میں مشی گن ، اوہاﺅ ، ویسٹ ورجینیا ، الانائے ، انڈیانا ، منی سوٹا ، وسکانسن ، لووا ، میسوری ، نارتھ ڈیکوٹا ، ساﺅتھ ڈیکوٹا ، کنساس اور نیبراسکا کو الگ کرنا جبکہ پانچویں آپشن میں مشرقی حصے میں نیو ہیمپشائر ، ورموٹ ، میساچوسٹ ، روڈ آئی لینڈ ،کنکٹی ، نیویارک ، نیوجرسی ، پنسلووینیا ، میری لینڈ ، ڈیلی وئیر اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے علاقے شامل ہوں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ کے شہریوں میں الگ ملک بنانے اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے کا رجحان تیزی سے پیدا کیوں ہو رہا ہے اور اس میں ٹرمپ کے دور حکومت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ، کورونا کے خلاف حکومت کی ناکام پالیسی سے لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوا ، اس کے ساتھ سفید فام اور سیاہ فام کے درمیان بڑھتی جنگ نے ملک میں بدامنی کو پروان چڑھایا ہے اور اس سب معاملے پر ٹرمپ کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران امریکہ کے حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں ، نیویارک سمیت دیگر ریاستوں میں آباد امریکی شہریوں نے ملک چھوڑ کر دیگر یورپی ممالک کا رخ کر لیا ، امریکہ اپنے آپ میں دو ممالک ہے، ایک سفید فاموں پر مشتمل خوشحال پڑھا لکھا اور ترقی یافتہ امریکہ جس نے پچھلے ہفتے خلا میں سپیس شٹل بھیجا تودوسری طرف وہ امریکہ ہے جس کی آبادی کا تقریباً 12 فیصد (چار کروڑ) سیاہ فاموں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے جو زندگی کی ہر شعبے میں سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں کئی گناہ پیچھے ہیں،یہ امریکہ کی وہ آبادی ہے جسے 1865 تک تو غلام رکھا گیا اور 1965 تک ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا،امریکہ نے جنگ عظیم دوئم کے بعد بحثیت ملک تعلیم، معیشت، سیاست، سائنس میں تو بے حد ترقی کی لیکن اس سفر میں اس نے اپنی سیاہ فام آبادی کو فراموش کر دیا، اس سے امریکہ تو آگے بڑھتا گیا اور دنیا کی سپر پاور بن گیا لیکن اس ترقی کے ثمرات سیاہ فام امریکیوں تک نہیں پہنچے جس کی وجہ سے ان کی پسماندگی اور احساس محرومی بڑھتی گئی یہی وجہ ہے کہ آج بھی ری پبلیکن پارٹی کے حامی 50 فیصد افراد اپنی الگ ریاست بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ وہ سیاہ فام اور دیگر تارکین کو اپنے ساتھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔سابق صدر ٹرمپ کے دورمیں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل کی ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور اس سے انتشار کی ایسی آگ لگی جس نے امریکہ کی تہذیب اور معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، ٹرمپ کے اقتدار کے اختتام پر کیپٹل ہل حملے نے امریکہ کے اندرونی حالات کو دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا، کس طرح سفید فام شہریوں کی اکثریتی جماعت ری پبلیکنز نے ٹرمپ کی شکست کا بدلہ کیپٹل ہل حملے کی صورت میں لیا،پوری دنیا میں امریکہ کی جگ ہنسائی ہوئی ،سابق صدور اوباما اور جارج بش تک نے امریکہ کو” بناناری پبلک“قرار دیا ۔