محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضانقوی کا سلام پہنچے ،آج قارئین پر ایک بات واضع کردوں اس سے قبل بھی بارہا اعلان کرچکا ہوں یہاں لکھا ،کچھ بھی میرا نہیں ہے اور آپ سب جانتے ہیں کہ ہی میں عامل ہوں نہ نجومی ہوں نہ کوئی جن و ماوراء مخلوق کو تابع رکھتا ہوں البتہ کتابوں و انٹرنیٹ اور روحانی ہستیوں کا فیاض اور انکی چھاپ آپ تک پہنچانے کا ضرور پاس ہوا، بارہا ناموں کے ساتھ آپ کو آگاہ کیا کس کا مواد و تحقیق ہے لیکن اپنی ذرا سی غفلت و کوتاہی کبھی انتہائی شرمندگی کا باعث بنتی ہے نہ میرا کام تعویذ و عملیات کو بیچنا ہے یا لوحیں فروخت کرنا ہے نہ زائچے بناتا ہوں ایسا میں کچھ نہیں کرتا اور یہی بنیادی وجہ پیشہ ور عامل حضرات سخت دشمن و مخالف ہوگئے یہی وجہ ہے کہ اب میں یہ ذمہ داری ان لوگوں کے سپرد بہت جلد کردونگا جو اس کو نبھا سکیں اور خود ریٹائر ہوجائونگا میں اس لائن کا نہ آدمی ہوں، نہ کبھی تھا، نہ اس میں چل سکتا ہوں جیسے ہی مجھے وہ صاحبان علم اپنے مقالہ جات بھیجنے کی ذمہ داری اُٹھائیں گے وہ آپکی خدمت کرسکیں گے اب روحانی کالمز و نقوش اور مواد کا کام بالکل بندہے اور یہ جب تک مجھے اپنے سرکار کی اجازت نہ ملے دوبارہ شروع کرنا ناممکن ہے البتہ اب مزاج شاعری کی طرف راغب ہورہا ہے اب وہی ہوگی اور ادیب ہونگے ۔ آج آپکی خدمت میں ایک حکایت لیکر حاضر ہوا ہوں پڑھیں اور سمجھیں جو مندرجہ ذیل ہے
کیا آپ بھی بنی اسرائیل ہیں ؟کیا تمہارے پاس گاڑی ہے؟میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور چند لمحے تک اسے حیرت سے دیکھتا چلا گیا۔ وہ دانت نکال رہا تھا اور بار بار اپنی داڑھی کھجا رہا تھا۔ پارک میں لوگ چہل قدمی کر رہے تھے۔ کچھ لوگ ہلکی ہلکی جاگنگ بھی کر رہے تھے۔ دوپہر مایوس ہو کر رخصت ہو رہی تھی اور شام دھیرے دھیرے مارگلہ کی پہاڑیوں سے نیچے سرک رہی تھی۔ گرم دوپہر کے بعد اسلام آباد کی شام کی اپنی ہی خوب صورتی ، اپنا ہی سکھ ہوتا ہے ۔ میری بچپن کی عادت ہے میں پریشانی یا ٹینشن میں کسی پارک میں چلا جاتا ہوں۔ ایک دو چکر لگاتا ہوں اور پھر کسی بینچ پر چپ چاپ بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ بینچ میری ساری ٹینشن، میری ساری پریشانی چوس لیتا ہے اور میں ایک بار پھر تازہ دم ہو کر گھر واپس آ جاتا ہوں ۔ میں اس دن بھی شدید ٹینشن میں تھا۔ میں نے پارک کا چکر لگایا اور سر جھکا کر بینچ پر بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد ایک نیم خواندہ پشتون کسی سائیڈ سے آیا اور بینچ پر میرے ساتھ بیٹھ گیا ۔ اسے شاید بڑبڑانے کی عادت تھی یا پھر وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا چنانچہ اس نے مجھے بار بار انگیج کرنا شروع کر دیا۔ وہ کبھی آٹے کی مہنگائی کا ذکر کرتا تھا، کبھی ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا رونا روتا تھا اور کبھی لوگوں کے غیر اسلامی لباس پر تبصرے کرتا تھا۔ میں تھوڑی دیر اس کی لغویات سنتا رہا لیکن جب بات حد سے نکل گئی تو میں نے جیب سے تھوڑے سے روپے نکالے اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیے ۔وہ تھوڑی دیر تک حیرت سے نوٹوں کو دیکھتا رہا، پھر اس نے قہقہہ لگایا۔ نوٹ واپس میرے ہاتھ پر رکھے اور بولا۔آپ لوگوں کا بڑا المیہ ہے ،آپ دوسروں کو بھکاری سمجھتے ہیں۔ آپ کا خیال ہوتا ہے آپ کے ساتھ اگر کوئی غریب شخص بات کر رہا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ آپ سے بھیک لینا چاہتا ہے۔
بابو صاحب ! مجھ پر للہ کا بڑا کرم ہے۔ چوکی داری کرتا ہوں، روٹی مالک عزوجل دے دیتا ہے اور خرچے کے پیسے مالک عزوجل کے بندے سے مل جاتے ہیں۔ میں بس آپ کو پریشان دیکھ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا تھا۔
میرا والد کہتا تھا پریشان آدمی کو حوصلہ دینا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے۔ چنانچہ میں جہاں کسی کو پریشان دیکھتا ہوں میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں مگر آپ نے مجھے بھکاری سمجھ لیا۔”
میری حیرت شرمندگی میں بدل گئی اور میں اس سے معافی مانگنے لگا۔ وہ ہنسا اور داڑھی کھجاتے کھجاتے مجھ سے پوچھا۔ “کیا تمہارے پاس گاڑی ہے؟”میں نے چند لمحوں تک اس سوال پر غور کیا اور پھر جواب دیا۔ “ہاں تین چار ہیں۔وہ بولا۔ ” تم کو پتا ہے آج کل پٹرول کی کیا قیمت ہے؟”میں نے ہنس کر جواب دیا۔ “مجھے نہیں پتا، ڈرائیور پٹرول ڈلواتا ہے۔”اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ “اور تم پھر بھی پریشان بیٹھے ہو؟” میں نے حیرت سے جواب دیا۔گاڑی کا پریشانی کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے خان؟” وہ سنجیدہ ہو کر بولا۔ “بڑا گہرا تعلق ہے۔کیا مکان تمہارا اپنا ہے۔؟” میں نے جواب دیا۔ “ہاں میرا اپنا ہے بلکہ تین چار ہیں۔”وہ مسکرایا اور پوچھا “کیا بیوی بچے بھی ہیں؟”میں نے فورا ہاں میں جواب دیا۔اس نے پوچھا۔ “بچہ لوگ کیا کرتے ہیں؟” میں نے جواب دیا “بیٹے اپنا کاروبار کرتے ہیں اور بیٹیاں پڑھ رہی ہیں۔”اس نے پوچھا ” اور کیا تمہاری بیگم صاحبہ کی صحت ٹھیک ہے؟”میں نے فورا جواب دیا “ہاں الحمد للہ۔ ہم دونوں ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ہمیں اللہ نے مہلک بیماریوں سے بچا رکھا ہے۔وہ بولا “اور کیا خرچہ پورا ہو جاتا ہے؟” میں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور جواب دیا “الحمد للہ۔ خرچے کی کبھی تنگی نہیں ہوئی۔اس نے قہقہہ لگایا اور میرے بازو پر اپنا کھردرا ہاتھ رکھ کر بولااور بابو صاحب آپ اس کے بعد بھی پریشان ہے؟آپ نے پھر بھی منہ بنا رکھا ہے۔ آپ کو پتا ہے آپ بنی اسرائیل ہو چکے ہیں۔میں بے اختیار ہنس پڑا اور پہلی مرتبہ اس کی گفتگو میں دلچسپی لینے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ “میں بنی اسرائیل کیسے ہوگیا اور بنی اسرائیل کیا ہوتا ہے؟وہ سنجیدگی سے بولا۔ “آپ اگر قرآن مجید پڑھیں تو اللہ تعالی بار بار بنی اسرائیل سے کہتا ہیمیں نے تمہیں یہ بھی دیا، وہ بھی دیا، ملک بھی دیا، کھیت بھی دیے، دشمنوں سے بھی بچایا، تمہارے لیے آسمان سے کھانا بھی اتارا، باغ اور مکان بھی دیے، عورتیں اور بچے بھی دیے اور غلام اور کنیزیں بھی دیں مگر تم اس کے باوجود ناشکرے ہو گئے۔ تم نے اس کے باوجود میرا احسان نہیں مانا۔
ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں ساری نعمتوں کے بعد بھی جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اس کے احسان یاد نہیں کرتا تو وہ بنی اسرائیل ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے بنی اسرائیل کی طرح ذلیل کرتا ہے۔ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون اور امن سے محروم ہو جاتا ہے اور آپ بھی مجھے بنی اسرائیل محسوس ہو رہے ہیں۔ آپ کے پاس اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتیں موجود ہیں مگر آپ ان کے باوجود بینچ پر اداس بیٹھے ہیں۔ مجھے آپ پر ترس آ رہا ہے۔”
اب مجھے جھٹکا سا لگا اور میں شرمندگی اور خوف سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔میں اپنے آپ کو پڑھا لکھا اورتجربہ کار سمجھتا تھا۔ بچپن سے اسلامی کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں اور عالموں کی صحبت سے بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں لیکن آپ یقین کریں بنی اسرائیل کی یہ تھیوری میرے لیے بالکل نئی تھی۔ میں نے قرآن مجید میں جب بھی بنی اسرائیل کے الفاظ پڑھے مجھے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ ناشکرے اور نافرمان لوگوں سے مخاطب ہے۔ یہ انھیں اپنے احسانات یاد کرا رہا ہے لیکن کیا للہ تعالیٰ کی نظر میں ہر احسان فراموش بنی اسرائیل ہو سکتا ہے اور کیا قدرت اس کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ وادی سینا میں کیا تھا۔؟یہ بات میرے لیے نئی تھی، میں اپنی جگہ سے اٹھا، اس ان پڑھ پشتون کے ہاتھ کو بوسا دیا اور پارک سے چپ چاپ باہر آ گیا۔میں پورے راستے للہ کی ایک ایک نعمت یاد کرتا رہا، اس کا شکر ادا کرتا رہا اور اپنی آستینوں سے اپنے آنسو صاف کرتا رہا۔ میں کیا تھا اور میرے رب نے مجھے کیا بنا دیا !!
٭٭٭