تنگ آمد بہ جنگ آمد!!!

0
3
جاوید رانا

آج کا کالم ہم چچا غالب کے اس شعر سے شروع کر رہے ہیں، ”تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا”۔ اس شعر کی تحریک کی وجہ آئین کے حوالے سے وہ چار روزہ تماشہ تھا جو 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے شہر اقتدار میں جاری رہا اور ٹھس ہو گیا۔ اس تماشے کے روزانہ کے مراحل اور واقعات سے قارئین یقیناً بخوبی واقف ہو چکے ہیں، تفصیل میں جائے بغیر چیدہ چیدہ نکات پر غور کرتے ہیں۔ آئینی تحریک عموماً پارلیمان میں اکثریتی جماعت کی جانب سے لائی جاتی ہے، 26 ویں ترمیم کی کہانی میں بھی بظاہر اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت کی جانب سے پہل کی گئی لیکن درحقیقت فارم 47- کے طفیل اور بوجوہ دیگر جماعتوں کے اشتراک سے قائم بیساکھیوں والی جماعت بلکہ حکومت کو یہ علم ہی نہ تھا کہ ترمیم کے مندرجات اور مقاصد کیا ہیں۔ اصل وجہ یہی تھی کہ مندرجات و نکات تو ان اصلی مقتدرین نے تیار کئے تھے جن کے بل بوتے جعلی حکومت چلائی جارہی ہے اور مقصد یہی تھا کہ عمران اور عدلیہ کو قابو کیا جائے۔ جعلی حکومت نے پروپیگنڈہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور دعویٰ کیا گیا کہ عدالتی نظام میں بہتری لانے کیلئے آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے مگر لا علمی کا یہ عالم تھا کہ خود وزیر قانون کے پاس بھی اصل مسودہ نہ تھا، حکومتی اتحادیوں کو بھلا کیا علم ہو سکتا تھا، دو تہائی اکثریت کے حصول کیلئے مولانا فضل الرحمن اور اختر مینگل کے حمایت کیلئے تلوے چاٹے گئے حتیٰ کہ صادق سنجرانی کی مدد سے بی این پی کو راضی کیا گی اکہ کسی طرح 224 کا مطلوبہ عدد حاصل کر لیا جائے مگر مسودے کی عدم موجودگی سے سارا کھیل ہی تہس نہس ہو گیا۔ اس سارے تماشے میں 8 قومی اسمبلی کی اور 5 سینیٹ سیٹوں کے سبب مولانا اس تماشے کے مرکزی ہیرو کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اور حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کیلئے مقناطیس بنے ہوئے تھے۔ ایک جانب پی ٹی آئی ان کی حمایت کے حصول میں مصروف تھی تو دوسری طرف حکومتی ٹولہ بمعہ وزیر قانون، وزیر داخلہ، بلاول و دیگر ان کے در پر حاضریاں دے رہے تھے مگر عجیب بات یہ تھی کہ ترمیم کا مسودہ ان حکومتی لوگوں کے پاس بھی مفقود تھا اور جب مطالبہ کیا گیا تو حکومتی نمائندوں کے پاس بغلیں جھانکنے کے سواء کچھ نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غالب (آئین) کے پرزے اُڑ نہ سکے اور پارلیمان، کیبنٹ کمیٹی کے اجلاس منعقد ہونے، ملتوی ہونے کے بعد تماشہ غیر معینہ مدت کیلئے ختم ہو گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا مقتدرہ کا تیار کردہ یہ تماشہ حقیقتاً ختم ہو گیا ہے؟ اس تماشے کا اصل مقصد تو بنیادی طور پر آئین کی صورت بگاڑ کر وہ شکل بنانا ہے جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو مزید با اختیار بنانا اور عدلیہ کی خود مختاری کو ختم یا محدود کیا جانا ہے۔ یہ کھیل پارلیمان کے ذریعے اس لئے کھیلا جا رہا ہے کہ حکومت یاپارلیمنٹ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ مقتدرہ کی مرضی کے مطابق اور زیر اثر رہتی ہے۔ عمران خان کا کہنا کہ مجوزہ ترمیم مجھے زیادہ سے زیادہ جیل میں رکھنے کے مقصد کے تحت لائی جا رہی ہے قطعی غلط نہیں ہے۔ مجوزہ ترمیم کی شقوں کا تجزیہ کیا جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ کے عمران و پی ٹی آئی کے حوالے سے منصفانہ روئیے، ججز پر ایجنسیز و ادارے کے دبائو کی شکایات اور بعض حلقوں کے مطابق بعض منصفین کی ریاست مخالف فیصلوں اور عدلیہ میں تقسیم کیساتھ ریاست سے نزاعی کیفیت مجوزہ ترمیم کا سبب ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان محاذ آرائی اب اس حد تک پہنچا چکی ہے جہاں یا تم نہیں یا ہم نہیں کے مصداق کسی ایک کو تو انجام تک پہنچنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حالات انگریزی کے لفظ ری ایکٹو مقابلے کی حدوں کو چُھو رہے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال نا واپسی کی ہوئی جہاں کوئی بھی فریق اپنے مطمع نظر سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا ہے ۔عمران خان اپنے حق کے ایجنڈے جمہوریت حقیقی آزادی اور عوام کی ریکارڈ حمایت پر ڈٹا ہوا ہے تو دوسرا فریق اپنی طاقت کے زعم پر اس امر پر تُلا ہوا ہے کہ اس کی برتری ہر صورت قائم رہے اور اس کی محکوم سیاسی اشرافیہ طاقتوروں کے متعینہ مقاصد کی تکمیل کیلئے زمین پر لیٹنے کو تیار رہتی ہے ۔ اس کی بدترین مثالیں پے درپے سامنے آرہی ہیں۔ 8 ستمبر کے جلسے کے بعد پارلیمان کی بے حرمتی اور نقاب پوش ہرکاروں کی پی ٹی آئی نمائندگان کی گرفتاریوں اور علی امین گنڈا پورا کی گمشدگی کے بعد واپس آکر مردانہ وار خطاب اور کپتان کے اس خطاب کی توثیق سے زور آوروں کو آئینی ترمیم کا کھیل کھیلنا پڑا، ہماری تحقیق سے یہ عقدہ کھلا کہ ترمیم اسٹیبلشمنٹ کی قانونی برانچ میں تیار کی گئی اور حکومتی ٹولے کو اس کے مسودے کے نکات سے آگاہ کر دیا گیا مسودہ فراہم نہیں کیاگیا مقصد یہی تھ اکہ طاقت کے بل پر منظور کروا کر 9 مئی کے حوالے سے ملٹری عدالت میں عمران کے ٹرائل کو رکاوٹوں سے کلیئر کرا لیا جائے۔ ہوا یہ کہ نا اہل حکومت کے غلط طریقے اور معلومات و تفصیلات محدود ہونے کے سبب یہ ایشو نہ صرف تکمیل سے محروم رہا بلکہ سازش کی قلعی بھی کھول گیا۔
ہمارا قیاس تو یہ ہے کہ عمران مخالفت اور عدالتوں کو قابو کرنے کا یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ ایک طرف تو مولانا سے رابطوں کا سلسلہ بعض پیشکشوں اور تحفظات کے ذریعے جاری ہے تو دوسری طرف موجودہ چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کے توسط سے پارلیمان میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہی۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں 8 ججوں کے اکثریتی بینچ کے تحریک انصاف کو رجسٹرڈ سیاسی جماعت اور 41 ارکان کے پی ٹی آئی سے تعلق کے اکثریتی فیصلے پر الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن اور بیرسٹر گوہرکو چیئرمین نہ ماننے کا اڑنگا لگایا ہے تو چیف جسٹس نے فیصلے کے اجراء کو طریقے کیخلاف قرار دے کر فیصلے پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔ حالات دن بہ دن خراب ہو رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ایک جانب اپنے عمران مائنس مقصد پر زور آزما ہے تو دوسری طرف خان اور پی ٹی آئی کیساتھ عوامی اکثریت اس عزم پر قائم ہیں کہ کسی بھی صورت مقتدرہ اور اس کے سیاسی حواریوں کو عمران کیخلاف مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ آنے والا وقت تنگ آمد بجنگ آمد کے مترادف ہوگا یہ صورتحال ملک اور عوام کیلئے کسی طور بھی مناسب نہیں اور مزید ابتری کی نوید بن سکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here