تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا
انیس تہتر کے آئین کی چھبیسویں ترمیم کہ جس کا مسودہ تا حال سوائے مقتدر حلقوں کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ،پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ ہر سیاسی جماعت نیوز چینل اور وہاں بیٹھے نامور صحافی اینکرز اپنی طرف سے مسودے پر بحث میں مشغول کسی نے کوشش کر کے مجوزہ ترمیمی مسودہ کے کچھ نکات کو لیک کرنے کی پر کی اڑائی اور بحث کا بازار گرم ہو گیا ہر کوئی اس پر رائے دینے میں لگ گیا ،سوشل میڈیا پر تو اس کے علاوہ جیسے کوئی کام ہی نہیں تھا، کیا بڑے اور کیا چھوٹے ،اس ترمیم پر دور کی کوڑی لاتے ہوئے دکھائی دئیے ،اب جبکہ ترمیم کے لیے دو تہائی بندے نہ ملنے پر غبار تھم چکا اور اوپر سے سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کے عین وقت پر ووٹنگ سے متعلق فیصلے نے کہ جس میں کہا گیا تھا کہ پارٹی کی مرضی کے بغیر ڈالا ہوا ووٹ کائونٹ نہیں ہوگا جس سے پی ٹی آئی کے اغوا شدہ ارکان کے گلو خلاصی ہوئی اور پارٹی پالیسی کے خلاف ترمیم کے حق میں ڈالنے والوں کی چاندی نہ ہو سکی ۔مولانا فضل الرحمن کی اہمیت اور انکے ہاں تمام پارٹیوں کے وفود کا تانتا یہ سب ایک تماشہ ہی بنا رہا ،فضول بحث میں جن نکات پر سرکھپائی ہو رہی تھی، ان میں چیدہ چیدہ لیکس بارے قلم گھسیٹ لیتے ہیں کہ آئین میں فیڈرل کورٹ کا تصور دیا جا رہا تھا جو سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ تمام لوئر کورٹ کو بھی دیکھے گی اور جس کا سربراہ سپریم کورٹ سے اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے قاضی فائز عیسیٰ ہونگے تاکہ موجودہ رجیم نہ صرف موجودہ مدت پوری کرے بلکہ اگلی مدت کے لیے بھی بنیاد رکھ کر جائے۔ سپریم کورٹ میں سینیارٹی میں پہلے پانچ جسٹسز میں سے حکومت اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگائے گی اس طرح سے عدلیہ انتظامیہ کے تقریبا ماتحت ادارہ بن جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ،آرمی چیف کی مدت پر بھی باتیں ہو رہی تھیں کہ مدت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی جائے، بلوچستان میں قومی اسمبلی کی سیٹیں بھی بڑھانے بارے مسودہ میں بھی شاید کوئی ایک آدھ شق ڈالی گئی تھی،مگر تماشہ نہ ہوا جگ ہنسائی وکھری ہوئی پر ان کا مقصدتو آئین میں ترمیم تھی ہی نہیں اور اگر تھی بھی تو سینیٹ میں کے پی کے کی نمائندگی ہی نہیں ہے ۔سینیٹ کے انتخاب ابھی تک کروائے ہی نہیں گئے ،مطلب ترمیم میں ایک صوبے کی نمائندگی ہی نہیں، مطلب سپریم کورٹ اس ترمیم کو اُڑا کر رکھ دیتی تو پھر یہ تمام تماشہ کیونکر ہوا تو صاحب نون والے اپنے ہنڈلرز کے ساتھ مل کر یہ تماشہ اس لیے برپا کر رہے تھے کہ وہ پکڑے گئے تھے ،ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے ،وہ سب سے مقدس ایوان قومی اسمبلی پارلیمنٹ کی توہین کے مرتکب ہوئے تھے، انہوں نے اندر گھس کر ممبرز قومی اسمبلی کو گرفتار کیا تھا جہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی وہاں بوٹ کیسے گھس گئے ویسے تو یہ لوگ کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں اور اغوا کر کے نامعلوم بنا دینے پر قدرت رکھتے ہیں مگر اس عمل پر پوری دنیا میں جگ ہنسائی اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث چل رہی تھی جس کے اثرات محسوس ہونے لگے تھے تو توجہ ہٹانے کے لیے ایسا تماشہ ناگذیر تھا ابھی مزید تماشے متوقع ہیں افتخار عارف کے بقول
کہانی آپ اُلجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشہ ختم ہوگا
٭٭٭