فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! جس طرح آج کل جسمانی طور پر نئی نئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔اسی طرح روحانی طور پر بھی نئی سے نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور بدقسمتی سے عظمت مصطفیٰۖ کو کم کرنے کی نئی سیکمیں سوچی جارہی ہیں۔ آجکل نئے پڑھے لکھے لوگ ایک عجیب وغریب بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں اور عظمت مصطفیٰۖ کو کم کرنے کے لئے نئی تفریق پیدا کی جارہی ہے کہ حضور علیہ السلام کی دو حیثیتیں ہیں ایک تو بشری اور دوسری رسالت محمدی علیٰ صاحبھا الصلواة والسلام لہذا حضور علیہ السلام جو بات بطور رسول فرمائیں وہ تو قابل عمل ہے اور لازمی ہے مگر جو بات بطور شہر فرمائیں اس کا ماننا یا کرنا لازمی نہیں ہے۔ بس یہی فرق گواہ کرنے والا ہے، اسی سے بچنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے اسی بات کادرس آیت کریمہ میں فرمایا ہے جس کا ترجمعہ یہ ہے” اور نہیں ہیں محمد مگر رسول” یعنی محمدۖ رسول ہی ہیں۔ یعنی آپ ہر رنگ اور ہرآن میں رسول ہیں۔ کوئی ایسا لمحہ حضورۖ پر نہیں گزرتا جس میں آپ رسول نہ ہوں۔ مثلاً آپ اُٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے، سوتے اور جاگتے رسول ہیں بلکہ ہر رسول خدا کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اس کی اطاعت ہر حال میں لازم ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے۔ ترجمعہ: اور نہیں بھیجا ہم نے کسی رسول کو مگر یہ کہ اس کی اللہ کے حکم سے اطاعت کی جائے؟ جب نبی علیہ السلام آیا ہی مُطاع بن کر رہے تو اس کی اطاعت لازم ہوگی۔ ہمیں کیا معلوم کہ نبی علیہ السلام یہ کام کس حیثیت سے کر رہا ہے؟ اگر رسول غلطی کرے تو بھی اطاعت لازم ہوگی یہ اللہ کو قطعاً منظور نہیں ہے۔ جب نبی خدا کا نمائندہ ہے تو تین شرائط نمائندہ کیلئے ضروری ہیں۔ نمبر1اس کی سوچ اپنے اصل کی منشا کے مطابق ہو۔نمبر2 اس کا قول کے فرمان کے مطابق ہو۔نمبر3اس کا عمل اصل کا عمل کہلائے۔
باقی رسول علیہ السلام صرف رسول ہیں اور حضورۖ رسول اعظم ہیں باقی انبیاء اللہ کے نمائندے ہیں مگر حضورۖ نمائندہ اعظم ہیں۔ اس لئے یہ تینوں شرطیں بدرجہ اتم حضورۖ میں موجود ہیں۔ نمبر1ملاحظہ ہو نمائندہ کی سوچ اصل کے منشا کے مطابق ہو تحویل قبلہ ہے ارشاد الٰہی ہے۔ ترجمعہ:”ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیریں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہو”۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ترجمعہ: اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اس لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اُلٹے پائوں پھر جاتا ہے اور بے شک یہ بھاری تھی مگر ان پر اللہ نے جنہیں ہدایت دی۔ اسی طرح وہ حدیث جس کو ملا جنون نے اپنی مشہور کتاب اصول نور الانوار میں نقل فرمائی ہے کہ حضورۖ ابتدائی دور میں نماز جو تا مبارک پہن کر بھی پڑھ لیتے تھے۔ ایک دن سرکار دو عالمۖ مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع فرما دی نماز ہی میں جبریل امین تشریف لے آئے اور حضور سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نعلین پاک اتار دیں کیونکہ آپ مقدس ہیں۔ مطھر ہیں ،منور ہیں مگر نعلین پاک کو کچھ پلیدی لگ گئی ہے۔ حضورۖ نے نماز ہی میں نعلین پاک اتار دیئے چنانچہ تمام صحابہ نے بھی جوتے اُتار دیئے۔ سرکار دو عالمۖ نے فرمایا تمہیں کیا ہوا کہ جوتے اتار دیئے! صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کی آپ کو دیکھا تھا اس لئے ہم نے بھی اتار دیئے۔ حضور نے فرمایا کہ میرے پاس تو جبریل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ جوتے کو بلیدی لگی ہوئی ہے۔صحابہ نے عرض کی حضور میں جبریل علیہ السلام سے کیا واسطہ وہ آئے یا جائے۔ ہمیں تو ادائے مصطفیٰۖ سے واسطہ ہے جو حضور کریں گے ہم بھی کریں۔
نمبر2۔ نمائندہ کا قول اصل کے فرمان کے مطابق ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمعہ: اور نہیں بولتے نبی کریم علیہ الصلواة والسلام مگر جو آپ کو وحی کی جاتی ہے” اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے محبوبۖ کی ضمانت دی ہے کہ اپنی مرضی سے نہیں بولتے بلکہ میری مرضی اور منشاء سے بولتے ہیں اور ان کا ہر قول میرا قول ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضورۖ نے فرمایا ترجمعہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے نہیں جاری ہوتا میری زبان پر مگر حق یعنی میری زبان حق ہی بولتی ہے۔نمبر3:نمائندہ کا عمل اصل کا عمل کہلائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمعہ: نہیں پھینکا آپ نے جبکہ پھینکا آپ نے بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکا دوسرا فرمان باری تعالیٰ: ترجمعہ: بے شک وہ لوگ جو آپ کی بیعت کر رہے ہیں سوائے اس کے نہیں وہ اللہ کی بیعت کر رہے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے رسولۖ کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دیا۔ آیت نمبر3: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ترجمعہ: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے یقیناً اللہ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت ہے۔ حضور علیہ السلام رسول اعظم ہیں آپ سے محبت اور آپ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ۖ کی عظمتوں کو مانا جائے اور بیان کیا جائے ۔اہل سنت وجماعت خوش قسمت ہیں آپۖ کے تمام اوصاف کو مانتے اور بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ پر فضل وکرم فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭