تو کیا جنرل ضیا الحق پیپلز پارٹی ختم کر سکے؟ ضیا دور میں کارکنوں کو ٹکٹکی لگا کر کوڑے مارے گئے ،صحافیوں کو قید و بند کی اذیتیں برداشت کر نا پڑیں بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا بینظیر اور نصرت بھٹو کو ملک بدر ہونا پڑا کھر اور جتوئی جیسے الگ سے پریشان ہوئے بھٹو کو الیکٹرانک میڈیا جو کہ اس وقت نو بجے کے خبرنامہ تک ہی محدود تھا سے مکمل آئوٹ کر دیا گیا، پرنٹ میڈیا پر خبروں کو سینسر کر دیا جاتا تھا پھر جب جہاز پھٹا تو پیپلز پارٹی کے ورکرز کھمبیوں کی طرح نکل آئے، بھٹو کی پھانسی کے بعد تین دفعہ پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی مسلم لیگ کے نواز شریف جو فوج کی نرسری میں پلے بڑھے انہی کی پیداوار تھے، انکو طیارہ سازش کیس میں جنرل سید پرویز مشرف نے بالکل فارغ البال قرار دیکر دس سال کے لیے نہ صرف ملک بدر کر دیا تھا بلکہ ان پر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر ایک معاہدے کے تحت پابندی لگا دی تھی ۔الیکٹرانک میڈیا جو مادر پدر آزاد تھا وہاں پر بھی نواز شریف کو بوٹ کی نوک پر رکھا گیا مگر جنرل مشرف کے استعفیٰ دیتے ہی سب کچھ واپس ہوگیا ،تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر پابندی ختم ہونے کیساتھ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے کا حلف بھی اُٹھایا، طاقتور جنرلز کے نام لیکر جلسوں میں انکو کوسنے والی پارٹی کے سربراہ کا بھائی آج وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیا گیا ہے ،اختر مینگل کا بھائی بلوچستان کی آزادی کی مسلح تحریک چلاتا تھا، مینگل اس کٹھ پتلی حکومت کا حصہ ہے ،محسن داوڑ اور علی وزیر پر دوہزار انیس میں فوجی چیک پوسٹ پر مسلح حملے کا سرکاری الزام لگا اور پابند سلاسل رہے ،پر داوڑ آج وفاقی وزیر اور علی وزیر حکومت کا حصہ ہے، شاہ زین بگٹی کا دادا فوجی آپریشن میں کام آیا ،شاہ زین آج ریاست کا لاڈلہ ہے، مرتضیٰ بھٹو نے ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کی پھر بھی پاکستان واپس آیا اور الیکشن بھی لڑا۔ایم کیو ایم کے خلاف نوے کی دہائی میں آپریشن ہوئے پھر حکومت میں واپسی بھی ہوئی، پاکستان کی سیاست میں اتار چڑھا آتے رہتے ہیں، پاکستانی سیاستدانوں پر برا اور اچھا وقت آتا رہتا ہے اور یہ تب تک آتا رہے گا جب تک کوئی ڈٹ کر ان کے آگے کھڑا نہیں ہوتا ،عمران خان نے ہمت کی ہے، اس لئے کہ اس کے پاس 70 فیصد عوامی طاقت ہے یہ ہمت شیخ مجیب نے بھی کی تھی ،گرفتار بھی ہوا ڈٹ گیا، آخر کار الیکشن کروانا پڑا، نتیجہ عوامی حمایت میں ہی آیا مگر سیاستدانوں کی بدقسمتی اور فوج کی ہٹ دھرمی کہ پاکستان کا یہ حصہ علیحدہ ہو گیا مگر اب حالات ایسے نہیں ہیں ،سوشل میڈیا کا دور ہے ،پابندیاں لگنے کی صورت میں عوام کی سمجھ کیساتھ ساتھ یوٹیوبرز کے بینک بیلنس میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ،خان کو اگر یہ لوگ منظر سے ہٹا بھی دیتے ہیں تو وہ اپنا کام کر چکا، اس نے عوام کو حقیقی آزادی کا راستہ دکھا دیا ہے ،آج نہیں تو کل یہ ہونا ہی ہے، امریکہ کو بھی مہذب معاشرہ بننے کے لیے بہت سی ماراماری کا سامنا کرنا پڑا تھا ،یہ ارتقائی عمل ہے ہمیں بھی اس عمل سے گزرنا ہے اور ہم گزر رہے ہیں انشااللہ، ایک دن کامیابی ہمارا مقدر ہوگی، عوام کے آگے کسی کی نہیں چلتی ، زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو ،جتنی جلدی یہ بات ہماری اشرافیہ اور طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے فرعونوں کی سمجھ میں آجائے اتنا ہی سفر آسان اور جلد ختم ہو جائے گا ورنہ اپنے کئے کا حساب تو آخر کار دینا ہی ہے ۔
٭٭٭