فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
97

محترم قارئین! جی ایم سی فائونڈیشن کے تحت ہفتہ وار چھپنے والا یہ آرٹیکل جو پاکستان نیوز اردو میں چھپتا ہے۔ مسلک حق اہل سنت وجماعت کا ترجمان ہے اور فکر رضا وفکر محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھا کا آئینہ دار ہے۔ حضور قائد ملت اسلامیہ، پیر طریقت، رہبر شریعت صاحبزادہ قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان زید شرفہ کی زیر قیادت وسیاحت چھپ رہا ہے۔ حضور نبی کریم ۖ کے نور وبشر ہونے کا عقیدہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک بہت اہم ہے۔ ہم آپ ۖ کے نوروبشر ہونے سے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ بے مثال نور اور بے مثال بشر ہیں، قرآن وحدیث تو سارے لوگ پڑھتے اور بیان کرتے ہیں لیکن حقیقت معنی اللہ ورسول جل جلالہ وۖ کے فضل وکرم اور بزرگوں کی نظر عنایت سے حاصل ہوتا ہے۔ حضور شمس المشائخ نائب محدث اعظم پاکستان صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی رضی اللہ عنہ کا فیض ہے کہ آج ہم اپنے ضروری عقیدہ کی حقیقت سے وابستہ ہیں۔ قرآن پاک میں ہے، ترجمہ: ”آپ کہہ دو کہ میں تو تمہاری رح کا بشر ہی ہوں مگر مجھے وحی کی گئی ہے کہ بیشک تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے” قرآن کریم کی اس آیت طیبہ کی بہت ساری تفاسیرو توجیہات بیان کی گئی ہیں۔ پھر اس آیت طیبہ کو متشابہات میں سے بھی شمار کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ ذات ولاصفات کی طرف وحی الٰہی ہو رہی ہے وہ ہماری طرح کیسے ہوسکتی ہے؟ بس اس کہنے میں کیا راز ہے بہتر تو اللہ ہی جانتا ہے۔ بہرحال اس اعلان بشریت پر غور کرنا ضروری ہے کہ اس اعلان کی نوبت کیوں آئی کیا اس وقت کوئی نور وبشر کا جھگڑا تھا یا کوئی خطرہ تھا جس کے پیش نظر بشریت کا اعلان کرایا گیا؟ کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جس نے بھی حضور علیہ السلام کو صدق دل اور نور دل سے دیکھا اس نے مثلیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ قرآن اور احادیث اس پر شاید ہیں۔ بلکہ ایسی بات کرنے کی مجال بھی پیدا نہیں ہوتی۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کی عورتیں غلام کہہ کر زلیخا کو طنعے دے رہی تھیں کہ وزیراعظم کی بیوی ہو کر ایک غلام پر عاشق ہے اس نے تنگ وناموس کو برباد کر ڈالا۔ زلیخا بہت پریشان ہوئی اس نے سوچنا ہر ایک کو جواب دینا مشکل ہے کیوں نہ ان کو یوسف علیہ السلام کا جلوہ دکھا دوں۔ چنانچہ قرآن کریم شاید ہے کہ جب زلیخا نے تمام دور سا اور وزراء کی بیویوں کو دعوت دی اور ایک پرتکلف دعوت کا انتظام کیا اورسب کے ہاتھوں میں تیز دھار چھریاں دے دیں اور کہا کہ جب میرا غلام گزرے تو ایک جھلک دیکھ کر کھانا شروع کردینا چنانچہ جب یوسف علیہ السلام سامنے سے گزرے تو عورتیں پکار اٹھیں، ترجمہ: اللہ کی قسم یہ بشر نہیں ہے یہ تو معزز فرشتہ ہی ہے۔ بڑائی بیان کرنے لگیں اور ہاتھوں کو کاٹ لیا یوں کہ چھریوں نے چمڑے کاٹے گوشت کاٹے اور چھریاں ہڈی لگنے لگیں خون کے خوارے چلنے لگے مگر عورتوں کو درد تک محسوس نہ ہوا۔ ورنہ وہ ہائے وائے یاسی وغیرہ کے لفظ کہتیں مگر ان کی زبانوں پر تو ترانہ جال یوسف تھا۔ اور وہ یوں کہہ رہی تھیں اور وہ یوں کہہ رہی تھیں خدا کی پناہ یہ بشر نہیں ہے بلکہ یہ تو نوری فرشتہ ہے تو اب اندازہ لگانا صاحبان عقل وفہم اور صاحبان سعادت ونیک بختی کے لئے بہت آسان ہے کہ دیکھنے والوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بشر کہنے سے انکار کردیا۔ جبکہ جہاں یوسف علیہ السلام کے حسن کی انتہا ہے وہاں سے حضورۖ کے حسن کی ابتداء ہوتی ہے تو کسی کو کیا مجال تھی کہ آپ کو بشر کہے اس لئے یہ کوئی اس وقت جھگڑا نہیں تھا ۔
وہ یہ کہ لوگ حیران تھے کہ حضورۖ ہم میں ہیں اور لباس، چہرہ، مہرہ وغیرہ سب ہماری طرح ہے مگر کام وہ کرتے ہیں جو وقت بشری سے بالکل وراء ہیں مثلاً زمین پر کھڑے ہوئے چاند کے دو ٹکڑے کردیئے۔ لوگ حیران ہوگئے بغیر چاند پر کوئی ضرب لگائے یہ کیسے ٹوٹ گیا لوگ تو سوچنے لگے کہ یہ کوئی بشر ہے یا کچھ اور اسی طرح زمین پر کھڑے ہوئے آفتاب کو اشارہ کیا وہ ڈوبا ہوا واپس پلٹ آیا درخت کو بلایا وہ بھاگتا ہوا آیا۔ یہ وہ چیزیں تھیں جس سے خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ لوگ حضور کو خدا کہہ دیں گے اور الٹا گمراہ ہوجائیں گے جیسے کہ پہلے انبیاء علیھم السلام کی امتیں ان کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ کر گمراہ ہوگئیں اور اپنے ایمان ضائع کرلئے۔ اس خطرے کے پیش نظر خداوند قدوس میں نے فرمایا: اے حبیب کریمۖ جلدی سے بشریت کا اعلان کردو، تاکہ آپ کی امت گمراہ اور بے ایمان نہ ہوجائے۔ اب یہ مسئلہ کہ اعلان کون کرے؟ حضور خود کریں یا اللہ تعالیٰ اعلان فرمائے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے حبیب! آپ خود اعلان فرمائیں میں تو یہ فرمائوں گا، اے کمبل اوڑھنے والے والے سفید چادر اوڑھنے والے، اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی! ہم نے آپ کو حاضر وناظر خوشخبری دینے والا، ڈر سنانے والا، اللہ کی طرف بلانے والا اس کے حکم سے اور چمکا دینے والا آفتاب بناکر بھیجا ہے اور ہم نے آپ کے ذکر کو آپ کی خاطر بلند کردیا ہے مقصد یہ نکلا کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود خدا ہو کر آپ کو بشر نہیں فرمایا تو پھر ہمیں تو کسی صورت زیبا نہیں ہے کہ ہم آپ کو سادہ بشر کہیں یا سمجھیں بس ہم تو آپ کو بے مثل بشر اور بے مثل نور ہی سمجھیں گے تو بیڑا پار ہوگا ورنہ ابوجہل و ابولہب وغیرہ ایسے ہی غلط فہمی میں ڈوب گئے بس اللہ پاک ہمیں حق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین) ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here