کسی زمانے میں، باقی دنیا کی طرح، ہمارے پیارے ملک پاکستان میں بھی معاشی لحاظ سے کئی درجہ ہوتے تھے۔ امیر لوگوں کے بعد اپر مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور پھر غربت کی لکیر کے نیچے لوگوں کا نمبر آتا تھا۔ آجکل پتہ نہیں معیشت دان کیا فرمارہے ہیں لیکن مہنگائی اور لوگوں کی قوتِ خرید دیکھتے ہوئے ہمیں تو اب پاکستان میں بالکل مختلف کلاسیں نظر آتی ہیں۔ ایلیٹ، اوورسیز ، ورکنگ اور ضرورت مند۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک بلندی پر پہنچی ہوئی ہے جو کسی بھی صحتمند معاشرے کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہوتا۔آج اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر درپیش تھا۔ بہت طویل عرصے بعد پاکستان کے کسی سفر میں، میں اکیلا نکلا ورنہ ہر سفر میں کوئی نہ کوئی ساتھی ہمراہ ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ایک ایسی عادت سی ہوگئی ہے کہ ہوٹل میں رہتے ہوئے ناشتہ بھی اکیلے نہیں ہوپاتا۔ کسی نہ کسی ساتھی کا انتظار رہتا ہے تاکہ مل کر کھایا پیا جا سکے۔ لیکن اس مرتبہ یہ لاہور کا سفر بوجوہ اکیلا ہی کرنا پڑا۔ دل کو تسلی دینے کیلئے احمد فراز کا یہ شعر دہرایا کہ!
ہم سفر چاہئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
آج کے ڈرائیور کا نام ایاز تھا۔ اسے ہم سفر ڈیکلئیر کیا اور موبائیل کے سٹرانگ سگنلز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، آفس کے کچھ باقی ماندہ کام نبٹانے شروع کردئیے۔ بھیرہ کے ریسٹ ایریا پر رک کر نمازیں ادا کیں۔ ایاز صاحب اپنے پسند کی ایک چائے میرے لئے بھی لے آئے۔ ہمیشہ کی طرح ڈرائیور ہوٹل کی چائے بہت شاندار لگی۔ ایاز صاحب نے بہت ا چھی چائے پلاکر اپنی گفتگو کا آغاز بھی فورا ہی کر دیا۔ جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ میرا آبائی ضلع میانوالی ہے تو بہت خوشی کا اظہار کیا۔ وجہ یہ بنی کہ وہ خان صاحب کا دیوانہ نکلا۔ اس نے بتایا کہ وہ میڈیا کے ایک گروپ کے ساتھ ڈرائیوری کرتے ہوئے خان صاحب کی کسی الیکشن مہم میں بھی ساتھ رہ چکا ہے۔ اس کے پاس خان کے مخالفین کے بارے میں بھی خاصی معلومات تھیں۔ یہ ڈرائیور حضرات پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی مخبری کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر تو بہت سے تاریخی واقعات کے عینی شاہد بھی ہوتے ہیں اور کچھ تو فری لانسر صحافی بھی لگتے ہیں۔ بہرحال معلومات کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ انکے پاس ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
اصولا تو میں اجنبیوں سے سیاسی گفتگو کرنے سے پرہیز کرتا ہوں، پھر بھی ایاز صاحب کے ساتھ جماعت اسلامی کے بارے میں بات شروع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایاز صاحب جماعت کی الخدمت کی تعریف کرنے کے بعد دوبارہ ن لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی کے مقابلے کی طرف آگئے۔ جماعت کی دینی خدمات کا بھی انہیں زیادہ پتہ نہیں تھا۔ انہیں بڑی فکر یہ تھی کہ مجھے پی ٹی آئی کا ووٹر بنالے۔ میں نے بتایا کہ ہم تو ملک سے باہر بیٹھ کر الیکشن کی خبریں ہی پڑھتے رہیں گے۔ ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ لیکن ایاز صاحب کے مطابق یہ ووٹ نہیں جہاد ہورہاہے ۔ ممکن ہے آج ہمارا ڈرائیور ایک ایکسٹریم مؤقف کی نمائندگی کر رہا ہو لیکن بعد ازاں، لاہور کے ہوٹل کے ملازمین بھی کچھ اسی طرح کی سوچ کے حامل نظر آئے۔اسلام آباد سے نکلتے ہوئے کچھ ساتھیوں نے وارننگ دی تھی کہ لاہور شہر سموگ میں گھرا ہوا ہے اور سانس لینا بھی دشوار ہوگا۔ اس لئے ماسک وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ تر ِان ڈور رہیں۔ سکھیکی کے قریب مجھے بھی فضا میں کچھ تبدیلی تو محسوس ہوئی لیکن سموگ خاصا کم ہو چکا تھا۔ اللہ تعالی نے کرم فرمایا اور ہمارے لئے ایک اور آسانی فراہم کردی۔
سرِ شام لاہور پہنچ تو گئے لیکن آج کی شام دوستوں سے زیادہ رشتہ داروں کے نام تھی۔ چچا، پھوپھو اور ماموں کے علاوہ دیگر قریبی عزیزوں کے ہاں حاضری دی۔ خاندانی نسخے کے مطابق بنا ہوا پلا کھانے کو ملا۔ ہر گھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی گیس کے بلوں کا رونا تھا۔ میں کیا تسلی دیتا۔ بس چچا غالب کی یہ غزل سب کی نذر ہے!
ہم سے کھل جا بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذرِ مستی ایک دن
غر اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
٭٭٭