لوٹا کریسی !!!

0
89
شبیر گُل

پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے، اس کا نظریاتی ڈھانچہ تشکیل نہیں پاسکا۔سیاسی اور اخلاقی بنیادیں انتہائی کمزور رہی ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان )اپنی نام کی بنیاد نہیں بن سکا ۔اسکی چوہتر سالہ تاریخ میں آدھا عرصہ آمریت اور آدھا عرصہ لنگڑی، لولی جمہوریت رہی۔ پاکستان نہ تو اسلامی ملک بن سکا اور نہ ہی حقیقی ڈیموکریٹک سوسائٹی بن کے اُبھرا۔سیاسی اُکھاڑ ،پچھاڑ اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے عوام آمریت کیطرف دیکھتی ہے۔آمریت ہو یا جمہوری حکمران،کرپشن اور لوٹا کریسی نے اخلاقی اور معاشرتی طور پر ہمیں کمزور کیا ہے۔فوج ،عدلیہ اور پارلیمنٹ اپنا وہ کردار نبھا نہیں سکی جس کی آئین نے تشریح کی ہے، ووٹ،نوٹ اورضمیر کا امتحان۔جمہوری اخلاقیات کا جنازہ۔غلاظتیں، ثقافتیں، خباثتیں سب جمع۔
متعفن اور بدبودار نظام ۔طوائف الملوکی کا راج ۔
کرپٹ اور کمزور عدلیہ نے اخلاقی طور پر ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔فیصلے کمزور اور جج ارب پتی بن گئے جس سے ملکی ساکھ کو نقصان ھوا۔عدالتیں بکتی ہیں جج اپنا قلم بیچتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ہر ادارہ کرپٹ ہے۔فوجی ڈکٹیٹروں اور آمروں کی قیمتی زمینوں پر قبضے کی ہوس نے سب کو کرپٹ کردیا ہے ،کرپٹ جرنیلوں کی من پسند پارٹیوں سے وفاداری نے ڈیموکریسی کو پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ پارلیمنٹ عوامی اُمنگوں کی ترجمان کبھی نہیں رہی یہاں عوامی بہبود اور ملکی فلاح پر اس انداز میں کام نہیں ہواجیسے ہونا چاہئے تھا۔ پارلیمنٹ سے امیدوار کی اہلیت،اخراجات، اور کریکٹر کی آئینی شقوں پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ کروڑوں روپے لگا کر اجڈ،ان پڑھ، قاتل اور لٹیرے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں جو اربوں روپے کمائی کرتے ہیں۔ پارٹی الیکشن اور ڈسپلن کا قانون نہ ہونے کی وجہ سے فلورکراسنگ اور کروڑوں لیکر ووٹ بیچنے کا رواج عام ہے۔کبھی چھانگا مانگا، کبھی مری ،کبھی جہانگیر ترین کا جہاز اور کبھی سندھ ہاس میں نوٹوں کی بوریوں سے خریدا گیا۔جس نے اخلاقی اور سیاسی کلچر کو ایک طوائف کے طور پر پیش کیا۔ پیارے پاکستان کو دلالوں اور طوائفوں کے سپرد کردیا گیا۔جو اپنا جسم کبھی ن لیگ، کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی پی ٹی آئی کو چند روپوں کی خاطر بیچ رہے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص چکور لایا۔ جس کا ایک پاں نہیں تھاجسکی قیمت بہت بتائی گئی۔ سلطان نے کہا کہ اسکا ایک پاں بھی نہیں ہے۔لیکن اسکی اتنی زیادہ قیمت کیوں بتا رہے ہو۔تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں ۔تو اسے ساتھ لے جاتا ہوں یہ عجیب طرح کی آوازیں نکالتا ہے۔ جسے سن کے بہت چکور آ جاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت دے کر اسے ذبیح کردیا۔اس شخص نے پوچھا کہ اتنی زیادہ قیمت دینے کے باوجود اسے ذبیح کیوں کیا۔ سلطان نے اس پر انتہائی تاریخی الفاظ کہے !
کہ جو دوسروں کی دلالی کے لئے اپنوں سے غداری کرئے اس کا یہی انجام ہوتا ہے۔ لیکن یہ تو اس چھوٹے سے جانور سے بھی گئے گزرے ہیں۔ جو روزانہ مختلف پارٹیوں کے ہاتھوں بکتے ہیں ۔ ایسے دلال ہمارے جمہوری نظام کی تباہی کے ذمہ دار ہیں ۔ جو کبھی پی پی ، کبھی ن لیگ اور کبھی پی ٹی آئی کی دلالی کرتے ہیں ۔ ان بے ضمیروں کو اگر پہلے نااہل کردیا جاتا تو آج موجودہ سیاسی کشمکش اور غیر یقینی حالات پیدا نہ ہوتے۔
پنجابی کی مثال ھے جناں کھادیاں گاجراں ٹیڈ انہوں دے پیڑ ان بکا مافیا کی وجہ سے سب کے پیٹ میں مڑوڑ اور پورا نظام دائو پر لگا ہے۔
یہ غاصب، لٹیرے میرے وطن کے لئے روگ ہیں ۔ جنہوں نے اپنا غلیظ جسم بیچ بیچ کر نوجوانوں اور عوام کو اندھیرے کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
لاالا کے دیس میں ،کشور حسین پر
المیہ ہی المیہ ۔ پاک سرزمین پر۔
دور تک اندھیرے ہیں،یاس کے بسیرے ہیں
گھات میں لٹیرے ہیں،غاصبوں کے ڈیرے ہیں۔
کیسی رات چھا گئی ۔صبح آفرین پر۔
المیہ ہی المیہ ۔۔ پاک سرزمین پر۔۔
اہل زر کا راج ہے۔جبر تحت و تاج ہے
ظلم کا سماج ہے۔روگ لاعلاج ہے۔
ظلم کا یہ سلسلہ ۔طاق ہے جبین پر۔
المیہ ہی المیہ ۔۔پاک سر زمین پر۔
خوف ہے ہراس ہے۔تشنگی ہے پیاس ہے
چھت ہے نہ لباس ہے۔چور چور آس ہے۔
ہائے لٹ گیا یقین ۔۔ ۔مرکز یقین پر۔۔
المیہ ہی المیہ۔۔۔ پاک سرزمین پر۔۔

عمران خان نے مذہبی کارڈ کھیل کر معتدل اور مذہبی ووٹ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔جیسے مسلم لیگ نے سوشلزم سے ڈرا کر رائٹ ونگ ووٹ کو متوجہ کیا تھا۔
پہلے ایاک نعبدو وایاک نستعین اور اب امر بالمعروف کا سلوگن۔
آئندہ نہی عن المنکر کا نعرہ بھی متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
ووٹر شعبدہ بازی سے ہمیشہ ہی دھوکہ کھاتا رہا۔اسلامی سوشلزم، مساوات ،روٹی کپڑا اور مکان،فلاحی مملکت اور انصاف کا معاشرہ کے نام پر سیکولر جماعتوں نے ووٹ کو تقسیم رکھا۔ان سیکولر جماعتوں کا ایجنڈا ایک ہے ۔ مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہو سکیں ۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو مولانا ڈیزل نے اقتدار کی ہوس میں تباہ کیا۔جس سے عوام کا اعتماد مجروع ھوا۔
گزشتہ چندسال میں ایک ایسا کلچر تیار ھو چکا ھے جس نے بدتمیزی،بدتہذیبی اوربداخلاقی کی تمام حدیں کراس کر لی ہیں۔ وزیراعظم اور اپوزیشن کی تقریریں پنجابی فلم مولا جٹ کے ڈائیلاگ محسوس ھوتے ہیں۔
کسی نے سوشل میڈیا پر لوگوں سے اپیل کی کہ اپنے بچوں کو عمران کی تقریر سے دور رکھیں۔ اس شخص نے یوتھیا برگیڈ کو بد اخلاقی، بدزبانی اور بد تہذیبی سکھائی ہے۔جس نے معاشرے کے کلچر کو بداخلاق کر دیاھے۔وزیراعظم ریاست مدینہ کا نام لیتاہے۔ کیا ریاست مدینہ کے علمبردارایسی زبان استعمال کرتے ہیں۔
خان صاحب کی پچیس سالہ تربیت میں پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی تین بار بکے۔
جن کو غدار ،انڈین ایجنٹ،بے ضمیر اور بکا مال کہا انہیں واپسی کے لئے عام معافی ۔ اور تمام گناہ معاف ۔غداری ،بے ضمیری ختم ۔ پچیس کڑوڑ میں بکنے ولوں کو دلے قرار دیا گیا۔ انہیں کہا گیا ھے کہ واپس آجائیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔آپکے تمام داغ ،غداری دھل جائینگے۔ اور حرامی سرٹیفیکٹ واپس لیکر حلالی سرٹیفیکٹ تھما دیا جائے گا۔ کل کے خرامی واپس آنے پر حلالی کہلائینگے۔ واہ جی کیسی ریاست مدینہ ہے۔جہاں حود زنا کریں تو جائز؟ دوسرا کرئے تو ذانی۔ خود شوگر مافیا اور چوروں کا مال کھائیں تو جائز۔ دوسرے کھائیں تو ملک دشمن اور ڈاکو۔ انکے نزدیک بد زبانی، بداخلاقی اور بدتہذیبی جائز ہے۔ جہاز بھر بھر کر لوٹے خریدیں تو حلالی۔ لوٹے واپس چلے جائیں تو حرامی۔ اگر پھر واپس آئیں تو کون حلالی اور کون حرامی ھوا۔؟ ان طوائفوں کو خریدنے والے بھی دے قرار پاینگے یا باضمیر ۔کیسا زمانہ آگیا ہے کہ لوٹے بھی باضمیر کہلاتے ہیں۔ جب جہانگیر ترین کے جہاز میں ہارس ٹریڈنگ ہو رہی تھی وہ جائز تھی ۔ اور اب کی ہارس ٹریڈنگ ناجائز۔ تہاڈا کتا کتا ساڈا کتا ٹامی ؟ جب جہانگیر ترین جہاز بھر بھر کر لوٹے بنی گالہ عمران کے سامنے پیش کرتے تھے۔ نہ یہ لوگ اس وقت با ضمیر تھے اور نہ اب باضمیر ہیں۔کیا کبھی لوٹے بھرتی کر کے ریاست مدینہ قائم کی جاسکتی ہے؟
جن لوگوں کے گلے میں پٹے ڈالے گئے ۔ آج انہوں نے دوسرے پٹے پہن لئے ہیں۔
عمران خان کہتے ہیں میں آپکے باپ کیطرح ہوں بچوں سے غلطی ھو جاتی ہے واپس آجائیں معاف کردیا جائے گا۔دس سے پندرہ بکا لوگوں نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جو واپس آنا چاہیں آجائیں توبہ کے دروازے کھلے ہیں ۔ رمضان المبارک کی آمد ھے جنہیں توبہ درکار ھو ۔وہ خلیفہ زماں عمران خان یا کاتب وقت فواد چوہدری سے گناہوں کی توبہ کے لئے رابطہ کر سکتا ہے۔یہ سہولت صرف لانڈری زدہ انصافیوں کے لئے ھے۔پی ڈی ایم کے حمایتی رابطہ کرکے شرمندہ نہ ہو۔
جن 12 لوگوں سے ن لیگ نے ٹکٹوں کا وعدہ کیا ہے۔ ن لیگ کے اپنے لوگ جو برس ہا برس سے الیکشن لڑ رہے ھیں کیا وہ پارٹی کیخلاف بغاوت نہیں کرینگے ؟؟ وزیر اور مشیر جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ اپوزیشن اور حکمران اس جنگ میں رل گئے ہیں۔رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اییوتھیے آجکل اتنے کنفیوز ہیں کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ سانس کہاں سے لینی ہے اور ہوا کہاں سے خارج کرنی ہے باجوہ اینڈ کمپنی کو گالیوں سے محسوس ھوتا ہے کہ کہ فوج سے محبت کا بخار اتر چکا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے لئے بلاول اور مولانا بہت اگریسو ہیں ۔مولانا فضل الرحمن ہر دور میں ایم کیو ایم کیطرح بکا مال رہے ہیں ۔ایک دو وزارتیں۔ کچھ قیمتی پلاٹس اور پرمٹ انکو رام کرنے کے لئے کافی ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ان کا ریٹ بڑھ چکا ہے۔ اب انکی بولی اربوں میں لگتی ہے۔
بلی کے خواب میں چھچھڑوں کیطرح مولانا کو اقتدار نظرآرہا ھے۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام۔
بلی کو جو بھی چھچھڑے نظر آرہے ہیں، اس کا حصول اس کے لئے ناممکن ہے کیونکہ ابا جان نے بچوں کو واپس لے لیا ہے۔بلی کی رال ٹپکنے کو کوئی فائدہ نہیں ویسے بھی جوتیوں میں دال بٹنے والی ہے۔
یہ موٹی بلی ہر دور میں ڈکٹیٹروں اور حکمرانوں کا حصہ رہی۔مدارس کے طلبہ کو جلسوں اور جلوسوں میں لاکر حکمرانوں پر دبا ڈالنا اس موٹی بلی یعنی مولانا کا وطیرہ رہا ہے۔تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ہوئی تو اپوزیشن کی دال جوتیوں میں بٹے گی۔اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ اس میں بلاول نے رکاٹ ڈالنے کی دھمکی دی تھی۔جس کے پیش نظر اسپیکر اسمبلی نے عدم اعتماد کے اجلاس کو اکیس کی بجائے پچیس مارچ کو بلایا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ھے کہ اجلاس تاخیر سے بلانے پر اسپیکر اسمبلی پر آئین کی دفع 6 کا اطلاق ہونا چاہئے۔پاکستان میں کوئی ایسی معتبر سیاسی شخصیت نہیں جو ان حالات کو کول ڈان کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کیطرف سے فوج پر لعن طعن شروع ہو چکی ہے جو آئندہ شدت اختیار کرسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ڈائی ہارڈ ممبرز کیطرف سے فوج کو گالیوں کا یوٹرن لینا پڑے گا۔ اسٹبلشمنٹ کا دبکا بالآخر تحریک عدم اعتماد کی ناکامی پر حاوی ہوگا۔ جن کو دلا کہا گیا،انکی اکثریت نے عمران کو باپ مان لیاہے ۔ عمران خان اور پی ڈی ایم نے عدم اعتماد کے موقع پر ڈی چوک پر بڑے جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے جسے سپریم کورٹ نے دو مختلف جگہوں پر کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ تصادم نہ ہو لیکن حالات تصادم کیطرف جارہے ہیں۔ 25 مارچ کو حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان تصادم اور تنا کے ماحول نے حالات کی سنگینی کا بگل بجا دیا ہے۔
اس روز پارلیمنٹ میں کرسیاں چلنے اور مار کٹائی کا اندیشہ ہے،اپوزیشن کے ارکان کا کہنا ہے کہ استعفیٰ لیے بغیر نہیں جائینگے ۔اس کشیدہ صورتحال میں کوئی سانحہ بھی رونما ہوسکتا ہے،قارئین !ان سب کا نظریہ حصول اقتدار ہے اس لئے اپنا ووٹ استعمال کرنے سے پہلے باکردار امیدوار پہلی اور آخری ترجیح ہوناچاہئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here