اگر بچپن کی کوئی یادگار بات پوچھے تو ہم کہیں گے بمبئی بیکری کا کیک جی ہاں جن لوگوں کا تعلق کراچی، حیدرآباد سے ہے سب ہی جانتے ہیں کہ بمبئی بیکری کا کیک ہی ربڑی کے بعد ایسا تحفہ تھا جو بڑے گھروں میں تحفتاً دیا جاتا تھا اور جس کی فرمائش کی جاتی تھی۔ یہ واقعہ ہے1960کا جب ہم بڑے ہوگئے تھے پھر حیدر آباد میں دوسری آغاخانی بیکریوں نے شہرت حاصل کی لیکن بمبئی بیکری کا کیک ہی نامور رہا۔ اور بڑے ہوئے تو بھی کراچی والوں کی فرمائش یہ ہی رہی یہ بیکری صدر کے علاقہ میں ایک بنگلہ میں واقع ہے جس کے مالک انگریزوں کے زمانے سے ایک ہندو فیملی ہے اور وہ کم مقدار میں کیک بناتے ہیں جو سہ پہر تک ختم ہوجاتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے صرف ایک پائونڈ کا ایک کیک ملے گا۔
وہ بچپن تھا اور لڑکپن کہ خواب میں بھی کیک نظر آتے تھے نیویارک آئے تو بہت سی مشہور بیکریوں کے کیک سے چائینز کیک اور آئسکریم کیک کھا لئے لیکن بات بمبئی بیکری تک ہی رہی۔ نیویارک کی اطالوی بیکریز اور ہسپانوی بیکری کے کیک جو اندر سے پھُس پھُسے اور باہر خوبصورت نرم کریم کی ڈیکوریشن سے سجے ہوتے تھے مزے میں بھی بے مزہ تھے ہمارے بچے بڑے ہوئے تو انہوں نے اپنے بچوں پر برتھ ڈے کیک بڑی بڑی نامور بیکریوں سے بنوائے ہم سے پوچھا گیا کیسا تھا اور ہم دل رکھنے کے لئے کہتے بہت مزیدار اور مزید کھانے سے یہ کہہ کر انکار کردیتے، بیٹا بس کرو ڈاکٹر نے وارننگ دے دی ہے شوگر لیول ایج پر ہے۔ جیکسن ہائٹس نیویارک کوئنرز کے علاقے میں ایک بیکری مشہور ہوئی فرنچ بیکری کے نام سے لیکن مالک بنگلہ دیشی ہے وہ کچھ پسند آیا ہر چند کہ قیمت بہت ہی زیادہ تھی لیکن وہاں خریدنے والوں کی لائن لگی رہتی ہے جس میں دیسی کم لینگے۔ لائن دیکھ کر لگتا ہے وہاں لوگوں کو روٹی نہیں ملتی اور ہماری سوچ کے مطابق کیک کھاتے ہیں پیسے کہاں سے آتے ہیں سراغ لگا رہے ہیں اور کچھ ماہ پہلے فیملی میں لیرزLAYE RSکا نام مقبول ہوا ہم نے کھوج لگائی معلوم ہوا یہ بیکری ہے پراٹھے یا الیکٹرانک کی دوکان نہیں یہ سن کر خوشی بھی ہوئی اور شبہ بھی کہ یہ پاکستانی ہے جو پاکستان میں بے حد مشہور ہے پاکستان نے کسی اور معاملے میں ترقی کی ہو یا نہیں لیکن کھانے پینے کے معاملے میں خاص کر مرغن غذائیں، کڑاھی گوشت، نہاری، پایہ اور میٹھے میں کیک اور مٹھائی لیکن لیرز کے اس کیک کو کھا کر اور دیکھ کر مایوسی ہوئی جس کی قیمت مرسیڈیز یا اب کی زبان میںTESLAمیں نیویارک اور شکاگو میں ایک چیز عام ہے کہ ہر ملک کے شہری آباد ہیں شکاگو میں پنجابی کی جگہ دکن(حیدرآباد) کے لوگ آباد میں نئے نئے ریستوران دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے بات کیک کی ہے تو ذکر ایک امریکن فرنچائز کا ہوجائے جس کا نام کیک فیکٹری ہے شکاگو میں وہاں جانا ہوا ہر چند کہ نام دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کیک سے زیادہ مینومیں پیزا سمیت ہر چیز تھی لیکن کیک پھُسپھسہ اور بے ذائقہ، پیزا نیچے سے جلا اور بے مزہ لیکن نواسے کی برتھ ڈے میں ایک خوبصورت ڈیکوریٹیڈ کیک دیکھنے کو ملا جیسے ہیرے کی پہچان جوہری کو ہوتی ہے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ اندر بھی مال بھرا ہے اور پھر کھل جاسم سم کے بعد ایک خوش ذائقہ کیک تھا پہلے تو ہم نے کہا بس ایک پتلی لیر ہم میٹھا کم کھاتے ہیں اور اندر ناریل اور انناس کی لیرز دیکھ کر ایک ہی نوالہ لیا تھا کہ طبیعت سیر ہوگئی فرمائش کری ایک ٹکڑا اور ملے گا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا یہ کوئی شاپنگ مال میں بنی کیک کی دوکان کا کیک نہیں ہے بلکہ ایک خاتون اپنے گھر سے یہ کام کرتی ہیں اور اون لائن پر آرڈر لیتی ہیں نام ذرا ہانز کرسچین اینڈرسن کی پریوں کی کہانی سے متاثر ہے اس کے پیچھے کیا راز ہے یہ محترمہ مسعودہ ہی بتا سکتی ہیںONCE UPONATIER BY MASOODAاردو ترجمہ ہگا ”ایک مرتبہ درجہ” خیر نام میں کیا رکھا ہے اصل تو ذائقہ اور خوشبو ہے”5میں سے5نمبر” دیتے ہیں ہم کہ اس سے لذیذ اور خوش ذائقہ کیک پہلے نہیں کھایا۔
اب کیک بنانا اور اس کو سجانا اور اسکی فلنگ کرنا ایک فن ہے اور فن کسی میں بھی صلاحیتوں کی پہچان ہے۔ ہمارے دکن والے ڈبل کے میٹھے سے آگے نہیں بڑھتے اور کھٹی کڑی اور دالچہ ان کا من بھاتا ہے جو شاید والئی دکن کے دربار میں نہ ہوبھی سکتا ہے کہ وائی دکن بقول جوش ملیح آبادی کے ایک بڑی سی کرسی پر پٹھے پرانے کپڑوں میں بیٹھے تھے۔(یادوں کی بارات) تو اب کیک کے بعد ہم شکاگو کے ریستورانوں میں پائے جانے والے پکوانوں کا ذکر بھی کرتے چلیں جس کے لئے ہر شہر مشہور ہے دیکھئے صاحب رہائش کے بعد جو سب سے اہم چیز ہے وہ پکوان ہے مطلب کھانا پینا ۔
نیویارک میں بنگلہ دیشی پاکستانی اور انڈین ریستوران کی آبادی کے لحاظ سے بھرمار ہے اور افغانیوں نے بھی اپنا نام کمایا ہے افسوس کہ کوئی پاکستانی ریستوران ایسا نہیں جس کا ذکر کریں کہ اچھا پکوان تھا یا سروس اچھی تھی، سنا ہے شیرازی نام بنا رہا ہے اور اس کا ذکر کرنا ضروری ہے ہکس ول اور ویلی اسٹریم میں جتنے ریستوران ہیں ان کے مالکان کا اس پیشہ سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے لیکن قیمتیں بڑھانے میں سرفہرست ہیں۔ انڈین ریستوران جہاں دال بغیر تڑکے کے ملتی ہو، تانبے کی ہنڈیا میں سجا کر رکھتے ہیں اور قیمت مٹن کے برابر، بنگلہ دیشی مناسب ہیں اور افغانی ہٹ اور مس کسی کا نام نہیں لے سکتے۔
اب آپ آئیں شکاگو جہاں سب سے پہلے صابری، عثمانیہ، شاہی اور اب علی نہاری نے نام بنایا ہے اگر آپ قیمتوں کو نظرانداز کردیں اور نان کو پاپڑ سمجھ لیں مطلب خستہ ان میں شاہی نہاری جو ولاپارک میں ہے کو ٹرائی کیا جاسکتا ہے اور اب عربی لوگ بھی ولاپارک میں البادی کو لے کر آئے ہیں دیکھیں وہ دیسی کھانوں کو کس طرح مقبول بناتے ہیں۔ عربی کھانوں کے بعد لیکن قیمتوں کے لحاظ سے سب سے آگے ہیں ملاحظہ ہو۔ چکن سیخ کباب19ڈالر اور دال تڑکا12ڈالر لگ رہا ہے دیوان ایونیو دوری اور پارکنگ کی تنگی کی وجہ سے شائقین کو ولاپارک لا رہا ہے۔ خوش آمدید بس ذرا قیمتیں کم اور نہاری کے لئے کسی بھی مندرجہ بالا ریستوران کو آزمایا جاسکتا ہے مناسب قیمت پر کہ ان کھانوں کی تیاری میں وقت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا دخل ہے اور عمدہ سروس ضروری ہے تو قیمتوں کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ ہم مہنگائی کے خطرناک تکلیف دہ دور سے گزر رہے ہیں۔
٭٭٭٭