دور جدید کے یزید!!!

0
119
شبیر گُل

مسلمانوں کے سال کا اختتام قربانیوں اور آغاز غم اور شہادتوں سے شروع ہوتا ہے۔ ذوالحجہ کا اختتام حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی قربانیوں سے ہوتا ہے۔جو مسلمانوں کو قربانی کا ، ایثار کا ، غریبوں کا خیال رکھنے کا درس دیتا ہے اور نئے سال کا آغاز صبر اور قربانیوں کا درس دیتا ہے۔یکم محرم کو شہادت عمر فاروق ہوئی اور دس محرم کو نبی کریمۖ کا پورا خاندان ذبیح کردیا جاتا ھے اور اسلامی تاریخ میں انتہائی وحشت اور بربرئیت کا دردناک واقعہ ہے ۔دشمنان اہل بیت بنو امیہ اور اس کے ساتھیوں نے ظلم و بربرئیت کی انتہا کردی ،ایسی سفاکیت پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ان کے ہاتھوں سے لٹی باغ رسالتۖ کی بہار ۔۔۔جو نمازوں میں صدا پڑھتے رہے صلے علی محمد وآل محمد۔موجودہ دور میں بھی ایسے درندے موجود ہیں جن میں نام نہاد علما، نام نہاد صحافی،نام نہاد فیمنسٹ،وحشی سیاستدان،اسٹیبلشمنٹ کے درندے ، انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے انسان نما جانور، لبرلز مافیااور حقوق نسواں کی علمبردار آنٹیاں ،دین قربانیوں کو نام ہے، حجروں میں بیٹھ کر،پھونکیں مار کر، رنگ برنگی پگڑیاں پہن کر، جھوٹی کرامات بیان کرکے،نہ دین پھیلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی دین کی خدمت ۔اسکے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔محرم الحرام کے مہینہ میں سنی پاکستان میں اور دنیا بھر میں بڑی بڑی شہادت حسین کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں جس میں اس حقائق پر اور بنو امیہ کے مظالم ،سفاکیت پر بات نہیں ہوتی، شخصی حکومت اور ملوکیت کی بدمعاشی کو بیان نہیں کیا جاتا یہ کونسا دین ہے ، کونسی حسینیت ہے۔ کونسی سنت ہے۔یہ یزیددیت ، آج بھی علما، پیروں، سیاستدان، بیوروکریسی اور اسٹبلشمنٹ میں موجود ہیں۔شہادت کانفرنس میں نوٹ پھینکے والے لوگوں کو شعور ہونا چاہئے کہ یہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کونسا دین ہے ۔ کونسی سنت ہے اور حسینیت ہے۔ کونسا غم حسین ہے کہ ناچنے والوں پر بھی پیسے پھینکے جائیں اور علما پر بھی۔ علما نبیوں کے ورثا ہیں ۔انہیں منع کرنا چاہئے۔ ذکر حسین پر یہ بیہودگی کسی کو ذیب نہئں دیتی۔ ہم کلمہ گوہ مسلمان ہیں ۔ہمیں مساجد میں جاہلیت کے کام نہیں کرنا چاہیں۔یزید پلید کے دور میں مدینہ میں ڈھائے گئے مظالم کو بیان نہیں کیا جاتا۔ واقعہ کربلا بیان کرنے والوں کو نوٹوں کی ویلیں ،نعت رسول مقبول پیش کرنے والوں کو نوٹوں ویلیں کونسا غم حسین ہے۔ھماری محبت آج بھی حسین کے ساتھ اور ہمدردیاں یزیدی عمل کے ساتھ ہیں۔ تیس تیس سال حکومت کرنے والے یزید اور فرعون کہتے ہیں کہ ہمیں ایکبار پھر موقع دیا جائے تو ھم ملک کی تقدیر بدل دینگے۔جن یزیدوں نے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچایا ہے۔ تیس سال لوٹا ہے ۔ اب وہ آکر کیا کرینگے۔قارئین ! اگر ہم دل پر ہاتھ رکھ کے اپنا جائزہ لیں تو کیا ھم وہ لوگ نہیں جو اللہ کے دین کی اسلام کی،قرآن کی اور سنت رسول اللہ کی بات کرتے ہیں۔ووٹ یزیدیت کے علمبرداروں، فتنہ پرست اور دین میں غلو کرنے والوں کو نہیں دیتے؟جعلی پیروں نے آج جس فتنہ کی بنیاد رکھی ہے ۔ اس سے دین میں دڑاریں پڑ چکی ہیں۔رسول اللہ کی حرمت پر مر مٹنے کا دعوی کرنے والے سنتوں کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔دین میں بدعات ،اور شرک داخل کرتے ہیں۔ اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔حالانکہ دین کو جس طرح چاروں خلفائے راشدین نے بہتر سمجھا تھا۔ جو رسول اللہ کے قریبی ساتھی تھے۔ انکے دور میں یہ رسومات اور بدعات نہیں تھیں۔آج وہ چیزیں ایجاد کر لی گئیں ہیں ۔جو چیزیں اور باتیں رسول اللہ اور خلفا کے دور میں نہیں تھیں ۔ ان سے بڑا اللہ سے قرب والا کوئی نہیں تھا ۔انکا مددگار، حاجت روا اور مشکل کشا اللہ رب العزت تھے۔ انہوں نے نا کسی کو ہوا میں اڑایا اور نہ ہوا میں اڑے۔ بہ ہی اللہ نے کسی پیر کو کسی کی قبر میں جانے کا اختیار دیا ہے۔جاہل اور مشرک علما کو اپنے دماغوں کا علاج کرانا چاہئے۔ جو علی ہجویری، اور عبدالقادر جیلانی سے من گھڑت باتوں کو منسوب کرتے ہیں۔کہیں پھونکوں والی سرکار ہے ۔ کہیں کوئی اور ۔ جن کا دین سے اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ انکے پھونکوں کے سلنڈر بھر کے ہاسپیٹلز میں دینے چاہیں ۔
قارئین کرام!۔اسلام سے پہلے مکہ میں بنو ہاشم اور بنو امیہ اہم ترین قریشی قبائل تھے اور دونوں کے درمیان رقابت پائی جاتی تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنو ہاشم میں پیدا ہونے کے سبب بنو اُمیہ میں سے ایک گروہ انکی قیادت قبول میں حجاب رکھتا تھا اور بہت دیر تک مقابلہ پر ڈٹا رہا۔ فتح مکہ کے بعد تمام امور خاندان مسلمان ہوگئے۔ تو کشمکش ختم ہوگئی۔ لیکن شہادت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد امیر معاویہ کی طرف سے خضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ نے ان جذبات کو دوبارہ زندہ کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا انتقام لینے کے نعرے ہر چلنے والی تحریک جب بنو عباس کے ہاتھوں چلی گئی تو اسے ہاشمی تحریک کا نام دیا گیا۔ اس طرح قدیم تلخیاں لوٹ آئیں۔ خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظلم و بربرئیت اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کی سب سے بڑی سفاکیت تھی۔ قاتلین اہل بیت اور بنو امیہ کے ان درندوں کو مختار ثقفی نے چن چن کر قتل کیا۔ جنہوں خاندان نبوی ۖکے ساتھ ظلم کی انتہا کی تھی۔ خضرت معاویہ کی جبرا خلافت اور اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کرنا۔ آفت اور شورائی نظام کے خلاف علم بغاوت تھا۔شعیان علی کی خضرت ابوبکر، خضرت عمر اور خضرت عثمان علیہم اجمعین اور اصحاب رسول سے نفرت کیوجہ بنوامیہ ہیں۔ کیونکہ قاتلین اہل بیت میں صحابہ کی اولاد تھی۔ خالانکہ تینوں خلفا خاندان نبوی کی عزت وتکریم کرتے تھے۔ اہل بیت کا احترام کرتے تھے۔ چوتھے خلیفہ سیدنا خضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہر حکومتی امور میں مشاورت کرتے تھے۔ اصحاب اہل بیت کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔اسکے برعکس معاویہ بن سفیان کی جبرا بادشاہت میں رسول اللہ کے ساتھیوں اور اہل بیت پر تبرا کرنا ، جمعہ کے خطبات میں برا بھلا کہنا، سرعام گالیاں دینا ایک وطیرہ تھا۔بنو امیہ کے ظلم ستم اور گند کیوجہ سے مسلمہ امہ تقسیم ہوئی۔ خارجیوں کو موقع ملا کہ خاندان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کریں۔ معاویہ کے دور حکومت میں سرعام اہل بیت اطہار پر تبرا اور گالیاں دی جاتی تھیں۔گورنر حاکم بن مروان انتہائی بدبخت ،سفاک اور ظالم درندہ تھا ۔ جو مسجد نبوی میں خضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر شب وشتم کیا کرتا تھا۔صحابہ رضوان علیہم اجمعین کی توہین کی جاتی تھی۔ گالیاں دی جاتی تھیں۔ شورائیت کا خاتمہ کرکے ملوکیت /بادشاہئت قائم کی گئی۔خوف و ہراس اور غنڈہ گردی کا ماحول قائم کرکے،زبردستی بیعیت لی جاتی تھی۔حکومت کے لئے غیراسلامی طریقہ کار اپنایا گیا۔ رسول اقدس کی وفات کے تیس سال بعد اسلامی ریاست کو ملوکیت میں بدل دیا گیا۔ یزید پلید کے ہاتھ مکہ میں بیت الحرم اور مدینہ میں مسجد نبوی کی بیحرمتی کی گئی۔نبی کریم نے جن اخلاقیات کا درس دیا ۔ اموی دور حکومت میں ان اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دی گئیں ۔جن انسانی اور اخلاقی ضابطوں کو تیع تیغ کیا گیا وہ درندگی اور سفاکیت آج بھی موجود ہے۔ زمانہ جاہلیت کے شیطان اب بھی موجود ہیں۔پارلیمنٹ،عدلیہ ،اسٹبلشمنٹ ،پولیس اور بیوروکریسی میں وہی شیطانی ذہنیت، وہی منافقت اور بے شرمی و بیحیائی موجود ہے جو اموی دور حکومت میں تھی۔ اسمبلیوں میں نوے فیصد جھوٹ بولا جاتا ہے۔منافقت کی جاتی ہے۔قوم کو دھوکہ دیا جاتا ہے جن فورمز پر ملکی حالات،اکانومی،مہنگائی،تعلیم، صحت، خارجہ ،داخلہ پالیسی، کی بات اور ڈیبیٹ ھو وہ مفلوج ہیں۔ جیسے پارلیمنٹ، سینٹ عدلیہ وغیرہ۔چونک پاکستان میں اس وقت کئی کئی یزید اور چھوٹے شمر موجود ہیں۔جنہوں نے پولیس، خفیہ اور ایف آئی اے کی وردیاں پہن رکھی ہیں۔یہ ظالم گھروں میں گھس کر بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو اٹھاتے ہیں، تشدد کرتے ہیں۔غائب کرتے ہیں۔ شمر ملعون بھی کلمہ گو اور نام مسلمان تھا۔ہمارے سرکاری اداروں اور سیاسی خبیثوں میں بھی ایسے ہی درندے موجود ہئں۔ یزید نے مدینہ شریف اور خانہ کعبہ پر حملہ کیا،اسکی کی سفاکی میں غلاف کعبہ کا کچھ حصہ جل گیا۔ دیواروں کو شدید نقصان پہنچا ۔ مدینہ اور حرم کی حرمت پامال ہوئیں ۔ایسے سفاک درندوں کے لئے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔آج یزید پلید کا نام انتہائی حقارت سے ، ہزاروں لعنتیں برسا کر لیا جاتا ہے لیکن حسین رضی اللہ عنہم آج بھی زندہ ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔قارئین! جب آئین کو روند دیا جائے۔ اداروں کو بے توقیر کیا جائے۔ تو معاشرے کا سوشل فیبرک ٹوٹ جاتا ہے۔ معاشرہ بے آسرا اور عام لوگ بے وقعت ھوجاتے ہیں۔ یہ کام اموی حکمرانوں نے کیا۔ یہی صورتحال اس وقت ملک کی ہے۔ حکمرانوں کو اس لئے سب اچھا نظر آرہا ہے، کیونکہ انکی کرپشن کے کیس ختم ہوچکے ہیں ۔ بیوروکریسی انکے ساتھ کھڑی ہے۔ کرپٹ اسٹبلشمنٹ اور کرپٹ بیوروکریٹس، کرپٹ رجیم کے ساتھ کھڑی ہو چکی ہے۔ یہ معاشرتی المیہ ہے کہ ہم اخلاقی قدریں کھو چکے ہیں۔ جب پی ٹی آئی آتی ہے تو مخالفین کو دیوار سے لگاتی ہے۔ ن لیگ آتی ہے یا پیپلز پارٹی یہی کام کرتی ہے۔ لیکن اس بار اسٹیبلشمنٹ کا کردار گھنائونا ہو گا تو چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال ھوگا۔اس وقت معاشرے کی اخلاقی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ خوف اور جبر کی دیواریں کھڑی کردی گئیں ہیں۔ خوف خدا ختم ہو چکا ہے۔ہم نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا بند کردیا ہے۔ کہ ہم کہاں کھڑے تھے ۔ اب کہاں ہیں اور ہمارا مستقبل کیا ھوگا۔ جیسے یزید نے اسلامی قوانین کو توڑا۔ شورائیت کو پامال کیا۔ ملوکیت ،جبر اور خوف کے بل بوتے پر حکومت کی۔ وہی کام کاش یہ درندہ طبعی موت نہ مرتا۔ مختار ثقفی اور محبین اہل بیت کے ہاتھوں اسکی تکہ بوٹی ھوتی۔ جیسے شمر اور مروان جیسے ملعوئین کی ھوئی۔آج ان جیسے قاتل مجرموں،سیاسی اور معاشی دہشت گردوں اور دین دشمن یزیدیوں کی گرد نیں اڑانے کی ضرورت ہے۔جنہوں نے قائد اعظم کے پاکستان۔ کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ ان زرداریوں ، شریفوں، لغاریوں، صاحبزادوں،پیروں اور قوم سے ظلم کرنے والے جرنیلوں کو زندہ زمین میں۔ گاڑنے کی ضرورت ہے۔یہ کام سیاسی ، فراڈی مجرم نہئں کرسکتے۔ صرف جماعت اسلامی یہ کام کرسکتی ہے۔لہٰذا روز روز اٹ سیاپا لگانے سے بہتر ہے ایماندار، دیانتدار نظریاتی افراد کو منتخب کیا جائے تاکہ یزیدیت کا خاتمہ ہوسکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here