فلسفہ شہادت امام حسین!!!

0
60
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

نواسہ رسول ، جگر گوشہ علی وبتول ، سید الشہدا ، سرور کاروان حریت ، مصداق ذبح عظیم اور محافظ قرآن واسلام حضرت امام حسین علیہ السلام نے پیغمبر اسلام کی سرپرستی میں آغوش فاطمہ میں پرورش پائی ۔ آپ بچپن ہی سے فضائل وکمالات کے مرکز شمار ہوتے تھے ۔ سرور کائنات نے خود آپ کا نام رکھا۔ مدینے کی گلیوں میں اپنے کندھوں پر بٹھایا۔ رضوان بہشت سے لباس و خوراک منگوائی ، حالت سجدہ میں پشت پر سوار ہونے کے باعث آنحضور نے سجدے کو طول دیا ۔کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں ؟ شہزادے نے میدان کربلا میں اپنا تن من دھن قربان کرکے اسلام کو حیات جاویدانی بخش دی۔بعض ناعاقبت اندیش مرخ اور کج فکر مفکر واقعہ کربلا کو شخصیتوں کی جنگ اور خاندانوں کے معرکے سے تعبیر کرتے ہیں ۔حالانکہ یہ دو کرداروں کا معرکہ تھا آپ نے روضہ رسول پر حاضری سے کربلا کے سفر کا آغاز کیا اور محمد ابن حنفیہ کے نام لکھے گئے۔وصیت نامے میں تحریر فرمایا ! نہ میں سرکشی اور جنگ وجدال کا ارادہ رکھتا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا ہے نہ کسی پر ظلم کرنا میں تو نانا کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں میری غرض امر بالمعروف نہی عن المنکر اور اپنے جد اور بابا کی سیرت کی پیروی ہے آپ کا یہ جملہ فلسفہ شہادت عظمی کی عکاسی کرتا ہے کہ خدا یا مجھے نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت ہے آپ نے گوشہ نشینی کی بجائے جہاد کو ترجیح دی آپ نے لشکر کشی نہیں کی ورنہ اپنے ساتھ عورتوں اور بچوں کو لے کر نہ جاتے ۔ آپ نے اپنی ذات کی بجائے اسلام کو زندہ رکھا۔ جس سے اسلام کے ساتھ ساتھ آپ بھی زندہ جاوید ہوگئے۔ اگر کوئی کہے کہ امام حسین اور شہدائے کربلا نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا تو زمانہ رسول کے تمام غزوے اور سریے مورد اعتراض واقع ہوں گے۔قرآن وحدیث میں جہاد کا حکم ہے اور جہاد صرف شخصیتوں ہی کا نہیں بلکہ کردار سے بیزاری کے اعلان کا نام ہے۔ یزید نے خود ساختہ خلافت کی زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی مذہب فطرت کے الہی آئین کو ایسا پامال کیا کہ ارواح انبیا علیہم السلام بھی لرز گئیں ۔ وہ خود شراب کے نشہ میں مست رہتا لوگوں کو اس کی رغبت دلاتا تھا۔بیت الما ل کو اپنی عیاشی اور اپنے اقربا کی عیش وعشرت کے لئے استعمال کرتا تھا ۔ اس کے دربار کی زینت گویا عورتیں تھیں مسجد نبوی کو اصطبل بنانا خانہ کعبہ کو منجنیقوں سے چوٹنا اس کے بھیانک جرائم میں شامل تھا ۔وہ شطرنج کو اسلامی کھیل کے طور پر متعارف کرارہا تھا ۔وہ اپنے دربار میں بندر کو عالم دین کا لباس پہنا کر نچاتا اور لوگوں کے سامنے تذلیل علما کا سامان کرتا ۔ اقتدار کے نشے میں مست یزید کیلئے حلال وحرام کی تمیز ختم ہوگئی تھی ۔امام مظلوم نے اسلام کی نصرت میں یزید کی بدکرداریوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کو منتخب کیا ۔ نشہ ریاست میں سرمست یزید بوسہ گاہ رسول میں بیعت کی زنجیر ڈالنے کے درپے تھا ۔ آپ نے ثابت کردیا کہ یہ گردن کٹ تو سکتی ہے جھک نہیں سکتی یزیدنے اس ہاتھ سے بیعت مانگی جس کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کی محبت پنہاں تھی ۔
میدان منی میں ایثار ابراہیمی کا عملی نمونہ وادی نینوا میں پیش کر کے ذبح عظیم کی تفسیر فراہم کی اگر امام عالی مقام یہ قربانی نہ دیتے تو انبیا کی محنت اکارت جاتی آپ کے سر کے کوفہ وشام میں قرآن پڑھنے سے حدیث تقلین کا عملی نمونہ منظر عام پر آیا ۔قاتلان حسین نے سر مظلوم کو نوکِ نیزہ پر بلند کر کے اپنی شکست کا کھلا اعلان کردیا ۔
بقول استاد قمر جلالوی!!!
جھکانا چاہاتھا جس سر کو شام والوں نے
شکست دیکھئیے اسی سر کو خود اٹھا کے چلے
آپ کے ایثار واحتجاج کے بعد ھر تخت نشین کیلئے کردار کی تصدیق مشکل ہوگئی اور یہ آشکار ہوگیا کہ لبادہ اسلام اوڑھ کر تخت پر بیٹھنے والا ہر شخص خلیفہ رسول نہیں ہوتا۔ بلکہ کبھی اس لباس میں یزیدبھی نمودا ر ہوسکتا ہے حاکم اسلامی کیلئے خاندانی حسب و عظمت کردار کی شرط قرارپاگئی۔ امام حسین نے جوارِ روضہ رسول میں یہ جملہ کہہ کر مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا حق وباطل کا معیار قائم کردیا۔ اگر شخصیتوں کا اختلاف ہوتا تو آپ مجھ جیسا نہ فرماتے ۔
آپ نے 28 رجب ھ میں اپنے نانا کے شہر کو ہمیشہ کے لئے ترک کیا ۔ شعبان شب جمعہ کو ھ وارد حرم الہی ہوئے ۔ آپ نے چار ماہ اور پانچ دن جوار خانہ کعبہ میں عبادت کے عالم میں گزارے۔ کوفہ کے مصلحت پسندوں نے امام عالی مقام کو متعدد خطوط بھیجے کہ وہ کوفہ تشریف لائیں۔ آپ نے اپنے سفیرحضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کے حالات سے خبر دیں جنہیں کوفہ میں بے دردی سے قتل کردیا گیا ۔اور ان کے بچوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا جو بعد ازاں شہید کر دئیے گئے۔
ذی الحج کو آپ مکہ سے عازم کربلا ہوئے ۔ آپ کے ساتھ بوڑھے جوان بچے اور عورتیں بھی تھے ۔ آپ کومدینہ سے عبداللہ بن عباس ۔ محمد بن حنفیہ اور حرم رسول حضرت ام سلمہ نے روکا تھا ۔ جب کہ امام نے یہ کہہ کر رخت سفر باندھا کہ اسلام کے لئے ہر قربانی دوں گا مکہ سے نکلتے ہی آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر طیار کا خط ملا جس میں عراق نہ جانے کا مشورہ تھا جسے آپ نے قبول نہ فرمایا امام حسین کے اطمینان میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی۔
منزل حاجر سے آپ نے کوفے والوں کو خط تحریر فرمایا جس میں انہیں ان کا وعدہ یادد لایا گیا ۔قصر بنی مقاتل پر عبداللہ ابن حر جعفی ملے جبکہ منزل شراف پر آپ نے محرم کا چاند دیکھا اور یہیں پر لشکر حر سے ملاقات ہوئی اور حر سمیت لشکریوں نے امام کے پیچھے نماز ادا کی آپ نے حکم دیا کہ لشکر حر کو پانی پلایا جائے باقی ماندہ پانی ان کے گھوڑوں کو پلایا گیا ۔حر نے امام سے کہا کہ ہمیں حکم ہے کہ آپ کو زندہ قید کر کے کوفہ لے جائیں آپ نے اپنے جواب میں دنیا بھر کے انقلابی اذہان کو ایک خط فکر دیا اور فرمایا کہ میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ میں کوفہ میں خاموشی سے قتل کردیا جائوں ۔امام مظلوم نے حر کے جواب میں یہ بھی فرمایا تھا میں راستہ دکھانے والا ہوں راستہ بدلنے والا نہیں ہوں ۔اس ایک جملے نے حر کے ایمان پر پڑی ہوئی گرد جھاڑ دی۔
محرم آپ وارد کربلا ہوئے اور ہزار درہم کے بدلے میں4مربع میل اراضی کو اہل غاضریہ کے بنی اسد قبیلے سے خریدفرمایا۔ کربلا کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی آپ نے حقوق بشر کا پہلا زریں اصول رقم کردیا۔ ورنہ حکومتی معاملات اور ہنگامی حالات میں خرید وفروخت کی باریکیوں کا خیال کون رکھتا ہے ؟ علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھا ہے کہ اسی سرزمین سے حضرت آدم حضرت نوح ، حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل حضرت موسی حضرت سلیمان اور حضرت عیسی جیسے انبیا کا بھی گزر ہوا جنہیں مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا ۔ سات محرم ھ کو سادات بنی ہاشم کیلئے فوج اشقیا نے پانی بند کردیا ۔
عاشورہ کی شب امام حسین نے اعدا کو ایک رات کی مہلت دی ۔ امام عالی مقام علیہ السلام آخری وقت تک جنگ سے کنارہ کشی فرماتے رہے مگر جب فوج اشقیا نے ہدایت قبول کرنے سے صراح انکار کردیا تو پھر اپنا سب کچھ لٹانے کے لئے امام اپنے اہل بیت وانصارکو لیکر میدان میں وارد ہوئے ۔ حبیب ابن مظاہر ۔ مسلم بن عوسجہ ۔ عابس شاکری ۔ بریر ہمدانی ۔ نافع ابن ہلال ۔ حر ریاحی۔وہب کلبی۔زہیر قین۔سعید۔اسلم ترکی جیسے اصحاب اورپھر حضرت عباس ۔ علی اکبر ۔ عون ومحمد۔ قاسم۔ عبداللہ ۔جعفر۔اولاد عقیل جیسے قرابتداروں نے میدان جنگ میں وہ جوہر دکھائے کہ جس کی نظیر ناممکن ہے ۔ آخر چھ ماہ کے علی اصغر کو بھی قربان کرکے خود سر کو سجدے میں رکھ دیا۔ ابن صفی نے خوب نقشہ کھینچا۔
تہہ شمشیر سجدہ اور ایسا معتبر سجدہ
بتااے بے نیاز اب اعتبار بندگی آیا
آپ نے فرمایا تھا اگر دین محمدی کی بقا میرے قتل کے سوا ممکن نہیں تو تلوارو آئو مجھ پر ٹوٹ پڑو آپ کی قربانی سے ہر دور کے مظلوموں اور محروموں کو وقت کے جابر وظالم سے ٹکرانے کا درس بھی ملا اور ضرورت پڑنے پر اسلام کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی تلقین بھی ہوئی ۔ حضرت امام علی کے سجدے کی تکمیل آپ نے کی۔ جب کہ خطبے کی تکمیل آپ کی ہمشیرہ جناب زینب نے کوفہ وشام کے بازاروں اور درباروں میں کی ۔ شاعر نے خوب کہا ۔
ایک سجدہ علی کا باقی تھا
ختم کردی حسین نے وہ نمازایثارشبیری سے اسلام ہمیشہ کے لئے بقا پاگیا اور فرعون وہامان قارون نمرود شداد یزیدجیسی قوتیں ہمیشہ کیلئے شکست کھا گئیں ۔
پیدا ہر ایک دور میں ہوتے رہے یزید لعن
لیکن کسی حسین کی گردن میں خم نہیں۔
امام کے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین نے بیماری کے باوجود خطبے دے کر کوفہ وشام کے لوگوں کو یزید کے خلاف عملی جہاد تک آمادہ کرلیا ۔ جب یزیدنے دربار میں سید سجاد سے پوچھا شہزادے اس جنگ میں کون جیتا تو آپ نے فرمایا کہ جس کے نانا کا نام قیامت تک اذان میں شامل رہے گا ۔
جب یزید نے تفاخر کرنا چاہا اور اہل بیت کی تذلیل کرنے کیلئے زبان دراز ی کی تو سیدہ زینب نے اس جملے سے اس کا دندان شکن جواب دیا یزید اگر آج رسول زندہ ہوکر آجائیں تو بتا وہ تیرا ساتھ دیں گے یا ہمارا ساتھ دیں گے؟ دربار میں موجود عیسائیوں نے یزید کو شرمندہ کردیا ۔ پیغمبر اکرم نے ارشاد فرمایا کہ حسن اور حسین جوانانِ بہشت کے سردار ہیں۔نیزفرمایا حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کا سفینہ ہیں ۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔ حسین کا دو ست میرا دوست اور حسین کا دشمن میرا دشمن ہے ۔
صحابہ کرام اور تابعین سب امام حسین سے محبت رکھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ جب امام حسین کو دیکھتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو آجاتے ۔ شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر گھوڑا دوڑاتے اور بھوکے پیاسے شام تک گئے تھے اور انہوں نے یزید سے کہا تھا کہ جو ظلم تم نے کیا یہ تو رومی ترکی بھی نہ کرتے تھے ۔ مگر یزید نے انہیں ایک خط کے بہانے خاموش کرادیا ۔
شاعر مشرق نے فرمایا !
غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
اللہ اللہ ہائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
بحر حق درخاک وخون غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گردیدہ است
نقشِ الا اللہ بر صحرا نوشت
سطرعنوان نجات ما نوشت
موسی و فرعون و شبیر ویزید
ایں قوت از حیات آمدیدید
مدعائش سلطنت پودے اگر
خود نکردے باچنین سامان سفر
رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتش اوشعلہ ہا اندوختیم
ریگ عراق منتظر کشت حجاز تشہ کام
خون حسین بازدہ کوفہ وشام خویش را
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دیگری
نماز عشق حسین حجاز ہے گویا
یہی نماز خدا کی نماز ہے گویا
جس طرح مجھ کو شہید کربلا سے پیار ہے
حق تعالی کو یتیموں کی دعا سے پیار ہے
رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں میں
کیا در مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے
خدا سب مسلمانوں کو امام حسین علیہ السلام اوران کے باوفا اصحاب کے راستے پر چلنے کی توفیق دے اور کردارِ حسینی سے محبت اور کرداریزیدی سے نفرت کا جذبہ عطا کرے۔آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here