سور طہ آیت میں ارشادِباری تعالیٰ ہے کہ!
ومن عرض عن ذِرِی فِن لہ معِیش ضنا ونحشرہ یوم القِیامِ عم
اور جو میرے “ذِکر”(درسِ نصیحت)سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے، یورپ اور امریکہ کی معیشت پچھلے کئی برس سے کچھ اس انداز سے زوال پذیر ہے کہ یہاں کے بڑے بڑے معاشی ماہرین کو بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ بہت ساری جنگیں لڑنے کے باوجود بھی معاشی برتری کو برقرار رکھنا، ان کیلئے بہت مشکل ہو رہا ہے۔ تعلیمی لحاظ سے پیچھے رہ جانے کے بعد، عام گوروں کو تو مشرق سے آنے والے امیگرنٹس ہی بے روزگاری اور معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ نظر آتے ہیں۔ مغربی ممالک میں مقامی ماہرین کی واقعتا کمی کے باعث بہت بڑی تعداد میں اچھے جابز اب مشرق کی جانب منتقل ہوگئے ہیں۔ کے بعد ہونے والی امیگریشن، اس سے پہلے والی امیگریشنز سے اس لئے مختلف ہے کیونکہ یہ فیکٹری ورکرز کی بجائے، پڑھے لکھے انجینئر ز اور ڈاکٹرز کو یہاں لے آئی ہے۔ پہلی جنریشن نے تو Low Profile رہ کر اپنا وقت گزارا لیکن اب سیکنڈ اور تھرڈ جنریشن نے یہاں کے سسٹم میں خاصے مضبوط قدم جما لئے ہیں۔ کم پڑھے لکھے گوروں نے ردِعمل کے طور پر امیگریشن پر قابو پانے کیلئے ایسے سیاسی امیدواروں کو کامیاب کرنا شروع کیا ہوا ہے جو پروٹیکشنزم کے نظریات پر نہ چاہتے ہوتے بھی عمل کر رہے ہیں اور اس طرح پوری دنیا میں مغربی چودھراہٹ کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ چوہدری کے گھر دانے ختم ہونے والے ہیں۔عالمی معیشت کے بنیادی ستون، جو مغربی طاقتوں نے تعمیر کئے تھے، اب اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ آجکل امریکہ اور یورپ ایک عجیب ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ فری ورلڈ کے دعوے دار مغربی پجاری، چھوٹے چھوٹے غریب ممالک پر ٹریڈ ٹیرف لگا رہے ہیں۔ دنیا کا ایجنڈا سیٹ کرنے والے اب اپنے ایجنڈے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ پچاس سالہ عروج اب اتنی تیزی سے زوال پذیر ہے کہ صبح شام ہر طرف اسی کا ذکر اور چرچا ہے۔ متحدہ مغرب اب ایسے انتشار کا شکار ہوچکا ہے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ انکی غیر منصفانہ جنگوں کی بدولت، مشرق سے آنے والے امیگرنٹس اب ان سب کیلئے دردِ سر بن چکے ہیں۔ دن میں آٹھ گھنٹے کام کرنے والے تن آسان گورے، بیس گھنٹے لگاتار کام کرنے والے مشرقی مزدوروں کا مقابلہ بھلا کیسے کر سکتے ہیں؟ جون ایلیا نے یہ اشعار شاید مغرب کی اسی کیفیت کے بارے میں بھی کہے ہونگے۔
وجہ معاش بے دلاں یاس ہے اب مگر کہاں
اس کے ورود کا گماں فرض محال بھی نہیں
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
اس موجودہ معاشی تنگی کی وجوہات تو بہت سی بیان کی جا سکتی ہیں اور بہت سے ماہرین کر بھی رہے ہیں لیکن قرآن مجید کی سور طہ کی آیت میں وحی شدہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا ذکر بہت کم ہو رہا ہے کہ جو لوگ الہامی نصیحت کو نظر انداز کریں گے، معاشی بدحالی ان کا مقدر ہو جائے گی۔ سود لینے اور دینے والوں نے تو اللہ اور اس کے رسول ۖ کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ موجودہ معاشی نظام کی تو بنیاد ہی سود جیسے ناسور پر رکھی گئی ہے۔ امیر کا امیر تر ہوتے رہنا اور غریب کا مزید سے مزید غریب ہوجانا ہی اس ظالمانہ نظام کا شاخسانہ ہے۔ معاشی بدحالی سے نکلنے کیلئے اس دنیا کی معیشت کو سود سے پاک کرنا ہوگا۔جماعتِ اسلامی پاک و ہند کے دو بڑے معاشی ماہرین، نجات اللہ صدیقی اور پروفیسر خورشید احمد(مرحومین)نے دنیائے مغرب کو اپنی تحریروں کے ذریعے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
صدیقی صاحب کا انتقال تو میں ہوا تھا اور آج( اپریل)پرفیسر خورشید صاحب بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔
ِنا لِلہِ وِنا ِلیہِ راجِعون
سرمایہ داری نظام جو سود کی اساس پر قائم کیا گیا ہے وہ دراصل ایک عام آدمی کے استحصال کا قائل ہے۔ علامہ اقبال نے اسی ظالمانہ نظام پر اپنی شاعری کے ذریعے خوب تنقید کی ہے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ؟
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات
مغرب کے اس زوال پذیر دور میں، رنگدار امیگرنٹس اچھی خاصی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے خاص طور پر مسلمانوں کیلئے حالات سخت سے سخت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ امریکہ جیسی لینڈ آف اپرچونٹی، امیگرنٹس کیلئے لینڈ آف نو اپرچونٹی بن چکی ہے۔ آزمائش کے اس دور میں بڑے صبر اور ہمت کی ضرورت ہے۔ ان حالات کا سامنا، ایک نہ ایک دن تو ہمیں کرنا ہی پڑنا تھا۔علامہ اقبال کے مندجہ ذیل اشعار جو اہلِ مغرب کے حالات بیان کرتے ہیں، مغرب میں رہائش پذیر امیگرینٹ مسلمانوں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہاں کی مقامی آبادی کو اسلامی نظام کے مختلف پہلوں کے بارے میں آگاہ کرنا، ایک بہت بڑی اور انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔
یورپ میں بہت روشنء علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
٭٭٭