دین بنیادی طور پر دعوت کا دوسرا نام ہے اگر کوئی پوچھے کہ دنیا میں سب سے مشکل کام کونسا ہے تو اس کا جواب ہوگا۔ دعوت کا کام۔ اسلئے کہ دعوت دماغ پگھلانے اور ہڈیوں کا گودا گھلانے کا تقاضا کرتی ہے کوئی انبیاء کرام اور مصلحین اُمت سے دریافت کرے کہ دعوت انسان کو کن کن زہرہ گداز اور جگر پاش مراحل سے گزارتی ہے۔ دعوت دین کے اجزائے ترکیبی میں پختگی علم، ضبط نفس، فراخ حوصلگی، صبروثبات، سلامتی فکرو ذہن اور قوت برداشت شامل ہیں۔ داعی کبھی تھڑدلا نہیں ہوتا، بے حوصلہ نہیں ہوتا، چڑچڑا نہیں ہوتا، بدخواہ نہیں ہو تاکم نگاہ اور طالب جاہ نہیں ہوتا، داعی کو زندگی کا ہر لمحہ پل صراط پر سے گزر کر بسر کرنا ہوتا ہے، ذرا سا افراط اور معمولی سی تفریط داعی کو غیر متوازن بنا کر اپنے مدعو اور مقصد سے بہت دور لے جاتی ہے۔ علماء کرام وارثان انبیاء ہونے کے ناطے داعی کا منصب رکھتے ہیں اس لئے انہیں عام آدمی کے مقابلے میں دلسوزی، دردمندی اور خیرخواہی کے جذبات سے معمور اور درشتی وتلخ کلامی سے دور ہونا چاہے کیوں کہ داعی اپنی منزل کہکشاں سے ہو کر نہیں پتھروں پر چل کر حاصل کرتا ہے۔ دارارقم صحن حرم، شعب ابی طالب اور وادی طائف داعی کی منزل کے سنگ ہائے میل ہیں داعی کسی چٹان سے سر نہیں پھوڑتا بلکہ جوئے رواں کی طرح اپنا راستہ بناتا اور رخ موڑتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک دور میں دینی لوگوں کو مناظرہ بہت مرغوب رہا ہے۔ اس عہد کی یاد گار ابھی باقی اور یہ نفسیات ابھی تک قائم ہے اہل نظر کا کہنا ہے کہ حسن مقال بہرکیف جدال سے بہتر ہے۔ کہیں مناظرہ ناگریز ہو بھی تو ”اقوال احسن” اور ”عنوان شائستہ” کو مدنظر رکھنا چاہیے، چیلنج، فتویٰ، تحقیر اور الزام تراشی سے راہ ہدایت اگر بالکل مسدود نہیں تو محدود ضرور ہوجاتی ہے۔
عیسائیوں ہندوئوں اور قادیانیوں سے تو مناظرے کا پھر بھی جواز ہے لیکن اہل اسلام کا فروعی مسائل پر ایک دوسرے کے دُوبدو ہونا اور دنگل بجانا ناقابل فہم سی بات ہے۔ اور موضوع بھی وہی از کار رفتہ کہ نماز میں ہاتھ سینے پر ہونے چائیں یا ناف پر، تراویح کی رکعتیں آٹھ ہیں یا بیس، یتجہ، دسواں اور چہلم مباح ہے یا مکروہ، انہی مناظروں کے نتیجے میں ایسے لٹریچر کا طورمار بندھا ہے کہ دینی حلقوں کا وقار خاک میں مل کر رہ گیا ہے علمی بحث اور تحقیقی مذاکرہ اور چیز ہے اور فن مناظرہ بالکل چیزے دِگر، اول الزکر سے ذوق مطالعہ بڑھتا اور ثانی الذکر سے صرف سماجی مقاطعہ واقع ہوتا ہے، لوگوں نے جب علماء کو ان مسائل میں ہمہ وقت الجھا ہوا اور سرگرداں پایا تو انہوں نے اپنے طور پر یہ سوچ لیا کہ جن سے آج تک یہ فروعی مسائل طے نہیں ہوئے ان سے دنیا کے عمومی مسائل کیا حل ہوں گے، جو کسی فقہی تعبیر میں تطبیق پیدا نہیں کرسکے وہ زندگی کی تفسیر کیا کرسکیں گے؟ دلیل ہیرے کی ایک ایسی کنی ہے جو پتھر کا جگر چیر دیتی ہے لیکن مناظرہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا نتیجہ آج تک نہیں نکل سکا۔ علماء کرام اگر داعی کا کردار اپنائیں گے تو انہیں ہر فرد بشر مدعو نظر آئے گا اور ہر مدعو، محبت، توجہ، ہمدردی اور شفقت کا مستحق ہوتا ہے، اسے جھڑکا، جھٹکا اور ٹوکا نہیں جاتا اسے پیار سے بلایا، محبت سے پاس بٹھایا اور دلیل سے سمجھایا جاتا ہے ،تبلیغ و دعوت کوئی ذاتی مسئلہ تو نہیں کہ آدمی ذاتیات پر اتر آئے یہ تو الٰہی فریضہ ہے۔
٭٭٭