قبضہ گروپ کوئنز میں بھی متحرک ہوگیا

0
24

قبضہ گروپ (اِسکوئیٹر ) یا قبضہ مافیا پاکستان میں تو سرگرم ہے اور اگر کوئی سادہ لوح شخص اُن کی زد میں آتا ہے تو شاید ہی اپنی زندگی میں اُن سے چھٹکارا حاصل کر سکتاہے۔ اُس کی موت ہی اُس کے چھٹکارے کی واحد ذریعہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے بدکردار اور بدعنوان ججز وہاں کی پولیس قبضہ گروپ کے آدم خور عفریت جو اپنے خونی جبڑے کو کھولے چھوٹے چھوٹے مالک مکان کو اپنا نخچیر بناتے ہیں اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججزحضرات اُن مجرموں کو اپنا وسیلہ شان و شوکت سمجھتے ہیں۔ لیکن امریکا کی سرزمین بھی اِن مجرموں سے پاک و صاف نہیں۔ امریکا کے لبرل سیاستدان اُن لٹیروں کی پشت پناہی کرتے رہتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ہی جارجیا میں ہونے والی اِسی طرح کی ایک واردات منظر عام پر آئی ہے۔ قبضہ گروپ کے نشانہ بننے والے ایک مظلوم شخص نے اپنی درد بھری کہانی ٹی وی کے اینکر پرسن اور اخباری نمائندوں کو بیان کرتے ہوے بتائی کہ وہ اپنی علیل اہلیہ کی عیادت کیلئے گیا ہوا تھا ، جب وہ واپس آیا تو اُس نے اپنے مکان کے اندرونی کمروں کو بالکل مختلف انداز میں پایا ۔ چند لمحہ بعد ہی اُسے اندازہ ہو گیا کہ قبضہ گروپ اُس کے گھر پر مبینہ طور پر قابض ہوگئے ہیںاور جارجیا کے قانون کے مطابق عدالتی حکم کے بغیر وہ اُنہیں نکال باہر بھی نہیں کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اُس کے محلے داروں نے بتایا کہ اُس کے مکان پر قبضہ کرنے والے افراد یو ہال ٹرک کے ذریعہ جمعہ کے دِن آئے تھے اور مکان کا تالا توڑ کر اندر داخل ہوگئے تھے ، اور اب وہ اُن کی وجہ کر سو بھی نہیں سکتا ہے۔ مالک مکان کالنز نے بتایا کہ اُس نے لاکھوں ڈالر اپنے مکان کی تزئین و آرائش پر خرچ کئے تھے، بہت سارے کام اُس نے اپنے ہاتھوں سے خود کیا تھا، اور اب وہ سب کے سب ضائع ہوگئے ہیں۔ کالنز نے بتایا کہ قبضہ کرنے والے افراد اِس کام میں مہارت رکھتے ہیں، کیونکہ جب اُس نے پولیس کو کال کی تو وہاں سے یہ جواب موصول ہوا کہ اُن قابضوں کے پاس اُسکے مکان کی ایک جعلی لِیز بھی موجود ہے ، اِس لئے یہ ایک عدالتی مسئلہ بن گیا ہے، اور پولیس کچھ بھی نہیں کر سکتی ہے۔ تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد اصل مالک مکان اِس نتیجے پر بھی پہنچا کہ ناجائز قابضین مکان کے ہر کمرے کو کرائے پر لگانا چاہتے تھے، اور اِس سلسلے میں اُنہوں نے ایک اشتہار مقامی اخبار میں بھی شائع کروایا تھا۔ تاہم تشدد کے ذریعہ یا زبردستی نکالنے کے بجائے جارجیا کا یہ قانون ہے کہ قبضہ مافیا کے خلاف مالک مکان ایک حلفیہ بیان عدالت میں دے تاکہ عدالتی کاروائی شروع ہوسکے۔ اِس مد میں ساٹھ سے نوے دِن کی مدت درکار ہوتی ہے جسکا مالک مکان کو صد افسوس ہے۔ مالک مکان کا کہنا ہے کہ ایک سیاہ فام امریکی کو دوسیاہ فام امریکیوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ہے اور جو ناقابل قبول ہے۔ جارجیا کے اسٹیٹ میں اِس طرح کے جرائم کا ارتکاب ہونا عام ہے۔ صرف ڈی کاب کاؤنٹی میں جہاں مذکورہ جرم وقوع پذیر ہوا ہے بارہ سو مکانات قبضہ مافیا نے اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے جو اُن مکانات کے مالک نہیں ہیں۔ لیکن اپنے نیویارک اسٹیٹ میں بھی حالات اِس ضمن میں کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ گذشتہ ہفتے ہی ایک مکان جسے ایک جوڑے نے دو ملین ڈالر میں خریدا تھا ، جب جوڑے نے مکان میں منتقل ہونے کی کاروائی شروع کی تو اُنہیں پتا چلا کہ اُس میں کوئی اور شخص رہ رہا ہے۔ جیسا کہ عدالتی دستاویزات سے یہ بات منظر عام پہ آئی ہے کہ فلورس سابقہ مالک مکان برنارڈ فرنینڈزکیلئے ملازمت کیا کرتا تھا۔ اُسے ہفتے میں تین ہزار ڈالر تنخواہ ملا کرتی تھی۔ گذشتہ جنوری میں برنارڈ فرنینڈز کا انتقال ہوگیا اور فلورس کی ملازمت ختم ہوگئی ، لیکن وہ اُسی مکان پر قابض رہا۔ مکان فروخت کیلئے مارکیٹ میں لایا گیا اور سوزانا لنڈا اور اُسکے شوہر نے اُسے خرید لیا۔ لنڈا کا موقف یہ ہے کہ ٹیکنکلی طور پر فلورس ایک سابقہ ملازم ہے، وہ ایک شخص کیلئے ملازمت کیا کرتا تھا ، جس کا انتقال ہو چکاہے۔ قبضہ مافیا یا پُر اسرار شخص جو متروکہ جائداد یا خالی مکان پر قابض ہوجاتا ہے ، ایک طویل عرصہ سے لوگوں کیلئے ایک موضوع کلام بنا ہوا ہے۔ بہت سارے لوگ اِس حقیقت سے خوفزدہ اور حیران رہ جاتے ہیں کہ کس طرح کوئی کسی کے مکان کی ایک پائی قیمت ادا کئے بغیر قانونی طور پر مالک بن جاتا ہے اور اُس کے ٹائٹل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں جس نے حکومت کے تمام ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور اہل دانش اِس امر پر متفق ہوگئے ہیں کہ امریکی قوم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ قبضہ مافیا کے حقوق امریکا بشمول نیویارک میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ اِن حقوق کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کے طریقہ کا رمختلف اسٹیٹ میں مختلف ہیں۔کسی مکان پر قابض ہونے کیلئے مذکورہ شخص کو متعدد شرائط پوری کرنی پڑتی ہے۔ مثلا” نیویار ک میں وہ شخص اُس مکان میں دس سال سے رہائش پذیر ہو، لیکن نیویارک سٹی میں صرف تیس دِن رہا ہو۔ پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کی رسید اُس کے پاس موجود ہو ۔ کلر آف ٹائٹل بھی وہ رکھتا ہو۔ بعض اوقات کلر آف ٹائٹل میں ذرا برابر بھی غلطی مالک مکان کیلئے عذاب جان بن جاتی ہے۔ مثلا”ایک مکان کا دو مختلف اشخاص کے پاس ٹائٹل کا ہونا۔ یہ صورتحال اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب لوگ کسی نئی بنی ہوئی بلڈنگ میں کنڈومینیم خریدتے ہیں اور بلڈنگ کا مالک دیدہ و دانستہ طور پر پیسے کی لالچ ایک ہی اپارٹمنٹ دو مختلف افراد کو فروخت کر دیتا ہے۔ مختصرا”عرض یہ ہے کہ آپ اپنے مکان کو خالی نہ چھوڑیں۔ جب بھی آپ پاکستان یا کسی اور ملک جائیں تو کسی کو اپنے گھر کی رکھوالی کیلئے چھوڑ جائیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here