پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سرکاری عہدیداروں، فوجی افسروں اور ججوں کو زرعی زمین رہائشی آلائٹوں اور پلاٹوں سے نوازہ جارہا ہے جس کی وجہ سے ملکی زمین کم ہوتی جارہی ہے کہ آج مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔ظاہر ہے جب جنرلوں ،ججوں اور سرکاری اہلکاروں کو زرعی زمینوں،کمرشل پلاٹوں، رہائشی بنگلوں اور کوٹھیوں سے نوازا جائے گا جس کا آغاز ہندوستان پر قابض فرنگیوں کے دور نوآبادیات میں ہوا تھا جو اپنے ضمیر فروشوں، سہولت کاروں، مددگاروں، غداروں، وطن فروشوں کو زرعی زمین اور جاگیریں عطا کر رہا تھاجس کا سلسلہ آج تک جاری ہے جبکہ ہندوستان میں آزادی کے فوری بعد جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا جس کے بعد ہندوستان میں جاگیرداروں،نوابوں اور راجائوں کا خاتمہ ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت آج ایک جمہوری اور ترقی یافتہ ریاستوں میں شامل ہوچکا ہے جس کی قیادت نے ملک دشمن عناصر جاگیرداروں، رسہ گیروں اور گماشتہ کاروباریوں کو آغاز میں بھی دفن کردیا تھا کہ آج بھارت وافرمقدار میں اجناس پیدا کر رہا ہے۔جو کسی بیرونی امداد کا محتاج نہیں ہے جبکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے دانے دانے کو ترس رہا ہے جس کو گندم، چینی اور سبزیاں بیرون ملک سے خریدنا پڑتی ہیں تاہم پاکستان میں زمینوں ،آلائٹوں، پلاٹوں کی بندر بانٹ کا آغاز قائداعظم کے دور سے ہی ہوگیا تھا،لیاقت علی خان کو سرعام قتل کر دیا گیا جن سے توقع تھی کہ یہ لوگ ہندوستان کے وزیراعظم جوہرلعل نہرو کی طرح زرعی اور دوسری اصلاحات نافذ کریں گے جس کے بعد پے درپے اُجڑے ہوئے لوگوں پر برطانوی نامزد گورنر جنرلوں اور فوجی جنرلوں کا قبضہ ہوگیا۔30تقریباً پچاس سال تک برائے راست اور باقی ماندہ سازشوں کے ذریعے قابض اور ملوث رہے جس کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ پھوٹ کے بعد دنیا کا غریب اور کمزور ترین ملک بن چکا ہے جو صرف پرائی جنگیں لڑتا ہوا آرہا ہے کبھی پاکستان کو سیٹو سنیٹو ارکان اور دہشت گردی کی جنگوں میں دھکیل دیا جاتا ہے کبھی اسے دہشت گردوں کی فہرست میں ملوث کر دیا جاتا ہے کہ آج تمام تر سامراجی طاقتوں کے گماشتہ پن کے باوجود پاکستان گرے لسٹ،ریڈلسٹ اور امکانی بلیک لسٹ میں شامل ہے جن لوگوں نے پاکستان کو بچانے اور مضبوط بنانے کا ارادہ کیا یا بنیاد رکھی انہیں زیڈ اے بھٹو کی طرح سولی پر لٹکا دیا۔بینظیر بھٹو کی طرح قتل کر دیا گیا اور نوازشریف کی طرح عمر قید اور جلاوطن کیا گیا جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں حصہ لیا اور ثابت کیا کہ پاکستان ایک طاقت ہے جس کو کوئی دشمن آسانی سے زیر نہیں کرسکتا ہے لہٰذا مجوزہ منتخب وزیراعظموں کے اقتدار پر قبضہ کیا گیا،انہیں رسوا کیا گیا ،قتل کیا گیا ،عمر قید اور جلاوطن کیا گیا۔منتخب حکومتوں اور پارلیمنٹوں کو برطرف کیا گیا کہ آج بھی پاکستان کی پارلیمنٹ غیر موثر عدلیہ اپاہج اور یرغمال اور حکومت ناکارہ ہوچکی ہے۔جس کے ذمہ دار پاکستان کے جنرل اور جج صاحبان ہیں جوکبھی مارشلائوں کے ذریعے عوام پر لشکر کشی کے ذریعے قابض ہوئے کبھی ججوں کے ذریعے منتخب وزیراعظموں کو ہٹاتے چلے آرہے ہیں جس سے ملک میں سرمایہ کاری اُجڑ گئی، مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان برپا ہوا ،کروڑوں لوگ بھوک اور ننگ کا شکار ہوچکے ہیں جو ننگے آسمان تلے خالی پیٹ سوتے ہیں۔بہرکیف جنرلوں اور ججوں کو زمینوں ،آلائٹوں اور پلاٹوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف ملک بھر میں ردعمل آرہا ہے جس سے عام شہری بے گھر اور بے در ہوچکا ہے جن کے پاس روٹی کھانے اور سر ڈھانپنے کے لیے جھگی تک نہیں بچی ہے جس کو ججوں نے گرا دیا ہے کل جنرل عوام کو بے روزگاری میں مبتلا کرتے تھے آج جج صاحبان روزانہ ہزاروں ملازمین کو اپنے عدالتی احکامات سے بے روزگار کر رہے ہیں ۔عام شہری خودکشیاں کر رہے ہیںجس کا الزام عدلیہ پر جارہا ہے جو غیر ضروری عدالتی احکامات سے پاکستانی عوام کو بے روزگار اور بے گھر کر رہی ہے جس سے معلوم ہورہا ہے کہ جج صاحبان بھی جنرلوں کی طرح پاکستانی عوام دکھ درد میں مبتلا کر رہے ہیں۔جو پہلے حل بے کسی اور بے اختیاری زندگی گزار رہے ہیں۔وہ ملک جہاں پچاس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہو ںاور نوے فیصد غریب اور بے کس لوگ پائے جائیں وہاں بنی گالہ کے سینکڑوں ایکڑپر محیط بنگلوں، کوٹھیوں اور محلوں کا جواز نہیں بنتا ہے جو اپنی عیش وعشرت کی وجہ سے لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔جنہوں نے ایسے ویسے جھوٹے وعدوںکا ذکر کیا ہے جن کا حقائق سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے جن کا لیڈر کبھی پاکستان کی غربت،افلاس، بھوک ننگ کو دور کرنے کے لیے چین، ملائیشیا، ترکی اور کبھی مدینہ ریاست کا راگ آلاپتا ہے کبھی سابقہ حکمرانوں کا واویلا مچاتا ہے جس سے عوام میں شدید بے چینی اور کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔جو کسی بھی وقت سخت ردعمل کا شکار ہوسکتی ہے۔بہرحال ججوں اور جنرلوں کے اتحاد اور ان کے آلائٹوں اور پلاٹوں کا شوروغل مچا ہوا ہے جو آج عام شہریوں کی زبان کی زینت بن رہا ہے کہ جس سے جنرلوں کی طرح اب ججوں سے لوگوں کا اعتماد اور اعتبار اُٹھ رہا ہے۔وہ وکلاء تحریک جس کی طاقت کے بل بوتے پر عدلیہ بحال ہوئی تھی وہ آج بے قابو ہوچکی ہے۔جس پر قابو پانے کے لیے وکلاء برداری پھر میدان میں نکلی ہے جن کے حال ہی میں کنونشنوں، جلسوں ، جلوسوں اور دھرنوں سے لگتا ہے کہ آج پھر وکلاء برادری پر ذمہ داری آچکی ہے کہ وہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں جس کے نتائج بہت جلد عوام کے سامنے آجائیں گے اور عوام کو وکلاء کا ساتھ دینا پڑے گا۔
٭٭٭