پاک ایران تعلقات امریکہ کیلئے لمحۂ فکریہ

0
9

لاہور (پاکستان نیوز) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان نے جہاں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے وہیں امریکہ میں اس دورے پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے ، امریکہ اور برطانیہ نے ایران کے ڈرون پروگرام پر پابندیاں عائد کر دی ہیں ، جبکہ ایران سے تیل کی خریداری پر بھی مکمل ممانعت ہوگئی، پاکستان اور ایران کو بھی خبردار کیا گیا ہے کہ وہ گیس پائپ لائن سمیت کسی بھی منصوبے پر عملدرآمد یا معاہدے سے باز رہیں ، پاکستان اور ایران کے مشترکہ اعلامیہ میں منشیات ، انسانی سمگلنگ کی روک تھام، تاریخی ثقافتی ، مذہبی اور تہذیبی تعلقات کو اجاگر کرنے ، پاک ایران سرحد کو امن کی سرحد قرار دینے کے اقدامات پر اتفاق کیا گیا ہے،ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور ایران کے دیرینہ تعلقات ہیں جو تاریخ، ثقافت، مذہب اور بھائی چارے سے جڑے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب نہیں کرسکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ قائد اعظم پاکستان ایران دونوں کے لیے قابل تعظیم ہیں وہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا سمبل ہیں۔ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ انقلاب ایران ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ دنیا میں شیطانیت اور سرکشی کے خلاف آج بھی ہمارے نعرے زندہ ہیں، فلسطین کی آزادی آج بھی مسلم دنیا اور مسلم اُمہ کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کا 28 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے، دفتر خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی متعدد یادداشتوں اور معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے، برادرانہ تعلقات مضبوط بنانے کیلئے اعلیٰ سطح کے دوروں کے باقاعدہ تبادلے کے ذریعے باہمی روابط کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔دفتر خارجہ کے مطابق دونوں پڑوسیوں اور مسلم ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات کو اجاگر کیا گیا۔مشترکہ اعلامیے کے مطابق پاکستان اور ایران نے دمشق میں ایرانی قونصلر سکیشن پر حملے کی مذمت کی، دونوں ممالک نے باہمی سرحد کو پاک ایران دوستی، امن کی سرحد کے طور پر تسلیم کیا، پاکستان اور ایران نے مستقل بنیادوں پر سیاسی، سکیورٹی حکام کے تعاون پر اتفاق کیا۔ جبکہ دوسری طرف ایٹمی ٹیکنالوجی کے ادارے آئی اے ای اے کی رپورٹ کہ ایران ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے بہت قریب ہے نے امریکہ میں کھلبلی مچا دی ہے، امریکہ اور برطانیہ نے ایران کے ڈرون پروگرام پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ امریکا اور برطانیہ نے جمعرات کو ایران کے ڈرون پروگرام پر پابندیاں لگانے کا اعلان کردیا ۔ امریکہ اور برطانیہ نے ایران کی شخصیات اور آٹھ کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ یورپی یونین نے ایران پر نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کی 16 شخصیات اور دوکمپنیوں پر پابندیاں لگائی ہیں۔ ان کمپنیوں نے اسرائیل پر حملے میں استعمال ہونے والے ڈرونز کے انجن بنائے تھے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کیلئے فلسطین کی درخواست پر ووٹنگ آج جمعہ کو سہ پہر 3بجے ہوگی۔ سفارت کاروں نے کہا اسرائیلی اتحادی امریکا ووٹ پورے ہونے کے باوجود قرار داد کو ویٹو کردے گا۔دوسری طرف امریکہ نے اسرائیل پر حملے کے بعد ایران کے خلاف جنگ میں شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔ وائٹ ہائوس میں امریکی صدر جوبائیڈن سے عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے ملاقات کی، اس دوران مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے ساتھ ساتھ غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور اسرائیل پر ایرانی حملے کے بارے میں بات ہوئی، دوسری طرف امریکی ایوان نمائندگان نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس میں امریکی انتظامیہ کو ایرانی تیل حاصل کرنے اور اسے صاف کرنے والی بندرگاہوں اور ریفائنریوں پر پابندیاں عائد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔مسودہ قانون کسی بھی ایسے شخص پر پابندیاں عائد کرتا ہے جو اقوام متحدہ کے ایران پر عائد کردہ میزائل پابندی کے تحت آتا ہے یا ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کی سپلائی یا فروخت میں شامل ہے۔یہ منصوبہ ایران کو امریکی نژاد سامان اور ٹیکنالوجی کی برآمد پر مزید پابندیاں بھی عائد کرے گا۔ سال کے آغاز سے لے کر اب تک تقریبا تمام ایرانی تیل کی فروخت چین کو گئی ہے۔ کیپلر کے مطابق ایک کمپنی جو دنیا بھر میں تیل کے ٹینکروں پر نظر رکھتی ہینے نوٹ کیا کہ تہران پر سخت پابندیاں عائد کرنے سے تیل کی مارکیٹ غیر مستحکم ہو جائے گی اور امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔واضح رہے کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹرجنرل رافیل گروسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کے قریب ہے جس پر عالمی توانائی ایجنسی کو تشویش ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹرجنرل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یورینیم کی افزودگی اور ایران کی جوہری تنصیبات تک بین الاقوامی معائنہ کاروں کی رسائی کی کمی نے اس کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here