کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں !!!

0
56

ہم جب مدینہ منور کی حدود میں داخل ہوئے تو ڈرائیور کی گفتگو کی رفتار کچھ تیز ہوگئی۔ وہ سڑک کے دونوں جانب پھیلی ہوئی مدینہ کی عمارتوں کی تاریخ بہت تیز رفتاری سے ہم تک پہنچانا چاہتا تھا۔ میری حالت یہ تھی زباں گنگ، آنکھیں پرنم، رنگ زرد، حلق خشک، پاں کئی من بھاری، سانس تیز، سر میں درد اور جسم ایک نامعلوم خوف کا شکار ہو کر کانپ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب ہوٹل پہنچے تو ہوش آیا کہ ہم سب تو مدینہ پہنچ چکے ہیں۔ خیر، کمرے میں پہنچ کر تیار ہوئے۔ سب سے پہلے سید الشہدا سیدنا حمزہ کے ہاں پہنچے۔ فاتحہ پڑھی اور پھر مسجدِ نبوی کی طرف چل پڑے۔ فاصلہ تو تھوڑا سا ہی ہے لیکن روضہ رسول ۖ پر حاضری کے تصور سے ہی دل کی بیتابی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ بالآخر ہم لرزتے و لڑکھڑاتے قدموں اور نمدیدہ نمدیدہ آنکھوں کے ساتھ، گنبدِ خضرا کے زیرِ سایہ پناہ لینے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ مرقدِ محبوبِ خدا کے اتنے قریب پہنچ کر دل کی اضطرابی کیفیت کچھ بہتر ہوئی تو رازو نیاز کے انداز میں، حضور کی خدمت میں درود و سلام پیش کیا۔ روضے کی زیارت کیلئے لوگ بڑی تعداد میں وہاں موجود تھے۔ میں کچھ متفکر تھا کہ اس بڑے مجمع میں اپنی خواہش کے مطابق روضہ کی جالی کے بالکل قریب کیسے پہنچوں گا۔ لوگ قطار اندر قطار، آہستہ آہستہ چلے جارہے تھے اور میں بھی لڑکھڑاتے ہوئے ساتھ ساتھ گھسٹتا جا رہا تھا۔اس کیفیت میں کچھ دیر بعد اچانک بڑی تبدیلی آئی۔ عمران صدیقی صاحب نے، جو بالکل میرے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، مجھے جھنجھوڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ بالکل معجزاتی طور پر میں اکیلا، روضہ رسول ۖ کی جالی کے بالکل قریب موجود ہوں۔ باقی سارے لوگ، قطار بنانے والی رسی کے پیچھے ہیں لیکن میں جالی سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر موجود ہوں۔ وہاں کھڑا ہوا محافظ، یہ سمجھتے ہوئے کہ میں اللہ کی بجائے رسول اللہ سے دعا مانگ رہا ہوں، مجھے سمجھانے کی کوشش کررہا ہے اور میں اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنے پیارے نبی ۖ پر درود و سلام بھیجے چلا جا رہا ہوں۔ کاش وہ وقت تھم جاتا اور یہ لمحات امر ہوجاتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امتِ مسلمہ کی مائیں، اپنی گود میں ہی اپنی اولاد کو عشقِ رسول کا ایسا سبق پڑھا دیتی ہیں کہ جو ساری عمر، ان کے دلوں کو، عشقِ رسول کے مبارک جذبہ سے منور رکھتا ہے۔ ہم بھی آج گنبدِ خضرا پہنچ کر اسی نور کا احاطہ کرتے رہے جو عشق رسول کے سانچے میں ڈھل کر، چودہ صدیوں کے بعد بھی، پوری دنیا کو حیران و پریشان کئے ہوئے ہے کہ آخر یہ مسلمان لوگ اپنے نبی ۖ کی حرمت و عصمت کی حفاظت کیلئے کیوں کر اپنی جان ہر وقت ہتھیلی پہ رکھے رکھتے ہیں۔اللہ کے نبی ۖ کے ساتھ میرے عشق کو مہمیز دینے والی مولانا محمد یوسف اصلاحی کی ذاتِ بابرکات تھی۔ کسی بھی محفل میں جب وہ کوئی حدیث بیان فرماتے تھے تو ہمیشہ اہلِ مجلس کو ایک وارننگ دیا کرتے تھے کہ خبردار، اگر کسی نے فرمانِ نبوی ۖ کے مقابلے میں اپنی رائے پیش کرنے کی ذرا سی کوشش بھی کی تو اس کا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ میرے دریافت کرنے پر مولانا محترم نے فرمایا کہ رسول اللہۖ پر ایمان کا مطلب صرف اطاعت کا عہد ہی نہیں بلکہ انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنا اور محبت سے بھی آگے بڑھ کر، عشق کی آخری حدود تک ان سے گہرا تعلق استوار رکھنا بھی مقصود ہے۔
روضہ رسول پر اس روح پرور اور ایمان افروز حاضری کے چند گھنٹے بعد ہمیں ریاض الجن میں نوافل ادا کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ الحمداللہ، سارا انتظام بہت اچھا رہا۔ وقت کچھ ایسا تھا کہ ہمیں عبادت کرنے کا خوب موقع ملا۔ دعاں کیلئے، میں نے یومِ عرفہ والا شیڈول اختیار کیا۔ مسجدِ نبوی کے انتظامات متاثر کن نظر آئے۔ مکہ مکرم میں تو ہر چیز جلد از جلد کرنے کا ایک پریشر رہتا تھا۔ یہاں مدینہ میں، سکون ہی سکون میسر آیا۔ اقبال عظیم صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ!
مدینہ جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ
مدینہ میں ہمارا اگلا دن جمعرات کا دن تھا۔ آج ہمارے حج گروپ نے بھی پہنچنا تھا اس لئے ہم اپنے گروپ والے ہوٹل شفٹ ہو گئے تاکہ سینہ چاکان چمن سے دوبارہ ملاقات ہو جائے۔ بعد دوپہر، ہم نے مسجد قبلتین کا رخ کیا۔ اس تاریخی مسجد میں نوافل ادا کئے۔ تصور کی آنکھ سے وہ منظر دیکھنے کی کوشش کی کہ جب وحی الہی کے نتیجے میں نبی اکرم ۖ نے دوران نماز ہی قبلہ کی طرف رخ تبدیل کیا ہوگا۔ کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد مسجد قبا جا پہنچے۔ اب یہ مسجد بہت کشادہ اور بڑی خوبصورت بن چکی ہے۔ مقامی احباب مدینہ منور کے چپے چپے میں موجود تاریخی مقامات اور زیارات کے بارے میں بتاتے رہے۔ شہر کے بڑی بڑی شاہرائیں، صحابہ کرام کے ناموں سے منسوب کردی گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمرِ فاروق، حضرت عثمان، حضرت علی کرم اللہ وجہ اور دیگر جید صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے نام ان شاہراں پر لکھے دیکھ کر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے۔
مسجدِ نبوی کے ساتھ ملحقہ علاقوں کو ایک وقف بنا کر وہاں بڑے بڑے ہوٹل اور شاپنگ سنٹر بنا دئیے گئے ہیں۔ ہم نے بھی آج وہاں سے کھجور، تسبیح اور دیگر تحائف کی شاپنگ کی۔ بہت سہولت رہی اور کافی وقت بچ گیا۔
علامہ اقبال کے نعتیہ اشعار کو گنگنانے کا صحیح لطف مدینہ منور میں ہی آتا ہے۔ لیجئے سنیے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی طہ
۔۔۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here