واشنگٹن (پاکستان نیوز)معروف جریدے ”دی ہل” نے طالبان کے افغانستان میں دوبارہ قبضے اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال کے دوران وہاں سے نکلنے اور امریکہ پہنچنے کی جستجو میں ہلاک ہونے والے ہزاروں افغانیوں کی جدوجہد پر مبنی کہانی کا دوسرا حصہ شائع کر دیا گیا ہے، تین حصوں پر مشتمل اس ایڈیٹوریل میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح افغانی اپنے ملک کی صورتحال سے نالاں اور مایوس تھے ، کوشش کر رہے تھے کہ وہاں سے کسی طرح نکل جائیں اور امریکہ آ جائیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ افغان شہری گل محمد بھی ایسے ہی افغانیوں میں شامل ہے جوکہ طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے سے پہلے چند ماہ تک روپوش رہنے میں کامیاب رہا۔انہوں نے اسپیشل فورس کے سابق سینئر کمانڈر کو دو دن تک ایک گھر میں باندھ کر رکھا اور کاروں اور نقدی کا مطالبہ کیا، وہ اپنے عہدے کے بارے میں جھوٹ بولتا رہا۔گل محمد نے اپنی کہانی دی ہل کو بتائی کہ وہ ہمیشہ رائفل کو میرے بہت قریب لادتے تھے، کبھی کبھی وہ میرے سر کے قریب گولی مار دیتے تھے، اور انہوں نے مجھے کہا تھا کہ وہ مجھے کسی بھی وقت، کسی بھی وقت مار ڈالیں گے،طالبان کے پاس اصول نہیں ہیں۔ وہ ایک شخص کو مارنے کی پرواہ نہیں کرتے، وہ صرف ایک دور کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ صرف ایک راؤنڈ، ایک گولی کی قیمت کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں،افغان طالبان نے مجھ سے 3500ڈالر کا مطالبہ کیا ، یہ رقم میری بیوی لے کر طالبان کے پاس پہنچی تو انھوں نے مجھے جانے دیا لیکن اس عمل نے اس کی جمع پونجی کو ختم کر دیا۔گل محمد نے بتایا کہ افغان طالبان سے رہائی کے بعد ہم نے اپنا مکان فروخت کر دیا اور ہوائی اڈے پر پہنچے جہاں خوش قسمتی سے میں نے بھیڑ اوررش کے دوران ہوائی جہاز تک اپنا راستہ بنایا۔امریکہ کی انسانی حقوق تنظیمیں اب بھی افغانستان میں ایک لاکھ کے قریب افراد کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں ، بہت سے لوگ اپنی شناخت کو چھپائے ہوئے ہیں اور روپوش ہیں اور باہر نکلنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں ۔