اگر ہم پچھلے50سال امریکہ کی بیرونی اور اندرونی پالیسی کا جائزہ لیں تو کہنا پڑتا ہے۔صدر نکسن جو ریپبلکن تھے کا دور اچھا تھا جب ہم یہاں نئے نئے آکر بسے تھے ہر طرف دودھ کی نہریں تھیں اس وقت تک تھرڈ ورلڈ ملکوں کے لوگوں نے قدم نہیں جمائے تھے بلکہ ملک میں خوشحالی تھی۔ کرپشن نام کی کوئی شے نہ تھی ۔ امریکن ہر آنے والے کو عزت دیتے تھے اور مدد کرتے تھے ہر کوئی قانون کے تحت چلتا تھا کہہ سکتے ہیں جس بات کو عمران خان کہتا ہے ریاست مدینہ اور حضرات عمر کا دور تھا ہم نے مذاق میں ہندوستان میں اپنے ماموں کو جنہیں امریکہ کے بارے میں جانکاری میں دلچسپی تھی۔ خط میں لکھ دیا ”ماموں یہ سمجھ لیں کہ ہر جگہ اسلام ہے، کوئی بے ایمانی نہیں ،کوئی چوری نہیں۔ تعلیم ہائی اسکول تک فری ہے(جو آج بھی ہے) انہوں نے حیرت سے دوسرے خط میں پوچھا ”تو کیا امریکہ میں اتنے مسلمان ہیں”ہم نے مزید جواب میں تشریح کی یہ1972کی بات ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکہ پر کارپوریشن کا قبضہ نہیں تھا۔ لیکن کسی وجہ سے نکس پر غیر قانونی جواز پیدا کرکے نکسن کو استعفٰے دینے پر مجبور کردیا۔ اگلے دس سال میں بغیر انتخاب کے صدر جبرالڈ فورڈ اور اسکے بعد ڈیموکریٹ پارٹی کے جمی کارٹر اور پھر ریپبلکن رونالڈریگن جو فلموں میں ایکٹنگ کرتے تھے سیاست میں آکر امریکہ کے40ویں صدر بن گئے۔انکی صدارت کے8سال نے امریکہ کو معاشی طور پر کمزور کردیا، نئے نئے قانون بنے، کمپنیاں ایک دوسرے میں ضم ہونے لگیں۔یونین کے وہ خلاف تھے ،ائیر کنٹرولر کی اسٹرائیک کے دوران انہوں نے سخت اقدام اُٹھایا اور تمام کو برخاست کردیا۔امریکہ کا جو بنیادی ڈھانچہ تھا وہ تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوگیا ،اس ہی دور میں لابیسٹ(دلال) کو بڑھاوا ملا۔ساتھ ہی روس بکھر گیا اور چھوٹی بڑی ریاستوں نے آزادی لے کر ملک بنا لئے۔ جرمنی جو دو ٹکڑوں میں تھا مل کر ایک بن گیا۔ ایران میں امام خمینی کے آنے اور شاہ کے نکالے جانے کے بعد امریکن ایمبیسی کے عملہ کو یرغمال بنا لیا تھا ،انہیں واپس لانے میں جمی کارٹر ناکام رہے لیکن ریگن کی ایک ہی دھمکی نے کام کر دکھایا اور ڈپلومیٹ کی واپسی ہوگئی ۔بیرونی فرنٹ پر ریگن نے ہتھیاروں کی دوڑ شروع کردی اور سخت رویہ اختیار کیا۔ بنکوں کو کھلی چھٹی دے دی اور اسی طرح کی دوسری کارپوریشن کے مزے آگئے، محنت کشوں کی تنخواہوں اور ملنے والی علاج کی سہولتیں کم ہونے لگیں۔سب سے بڑی تبدیلی دوا کمپنیوں اور آئل کمپنیوں میں آئی کہ وہ آزاد تھے، فری ٹریڈ کے نام سے قیمتیں بڑھانے میں اس کا بوجھ عوام کی جیبوں پر پڑا ،کارپوریشنز کےCEOاپنی دیو قامت تنخواہیں اور مراعات سے مالا مال ہونے لگے۔ ہسپتال والوں کو بھی موقعہ ملا اور تمام کارپوریشنز نے منافع خوری کی اعلیٰ مثال قائم کرکے دنیا کے دوسرے ممالک کو بھی راستہ بتایا۔ وال اسٹریٹ بے ایمانوں اور اندرونی ٹریڈنگ کی زد میں آکر قانون کے خلاف چلی بہت سے ٹریڈر جیل گئے اور ان سب کاموں میں آنے والے صدور نے بڑھاوا دیا۔کانگریس مین اور سینیٹر دلالوں کا آلہ کار بنے اور بن رہے ہیں جارج بش اور انکے صاحبزادے ڈبلیو بش نے اپنی صدارت کا آغاز جنگوں سے کیا ملکوں کو غربت کی لکیر سے نیچے پہنچایا بالخصوص، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن اور شام میں ایسی تباہی مچائی کہ منگول یاد آئے جنہوں نے عراق میں آگ لگا کر انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی اور تعلیم گاہیں اور تاریخ کاذخیرہ لائبریوں کو آگ لگا دی۔اور یہ کام اوبامہ کی صدارت تک جاری رہا۔
25ویں صدر ٹرمپ آئے یہ2014کا سال تھا انکے دور کی خاص بات جو ہم نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ ٹرمپ اپنی من مانی کرتے تھے وہ دلالوں کو منہ نہیں لگاتے تھے، مہنگائی پر پورا کنٹرول تھا اور جنگوں پر بھی ان کے دور میں مسلمان ملکوں پر کوئی بمباری نہیں ہوئی لیکن پروپیگنڈہ مشینری نے انکے خلاف کام شروع کردیا کہ وہ اپنے اردگرد جاپلوسوں کو نہیں رکھتے تھے۔ پروٹوکول کے خلاف چلتے تھے جیسے شمالی کوریا کے صدر سے ملنے اکیلے پہنچے وہ کینیڈی کے بعد پہلے صدر تھے جس نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو برابر کا رتبہ دیا۔ اور مالک کی جگہ دوست بن کر بات کی کچھ لوگوں کو یہ انداز پسند نہیں آیا انکے خلاف ریٹائرڈ جنرل جن کی تعداد19تھی ہوگئے وہ بے مقصد جنگ کے خلاف تھے اور ہتھیاروں کی فراہمی اور پھیلائو کے خلاف آئزن ہاور صدر کی بات کو اہمیت دیتے تھے جنہوں نے کہا تھا ہتھیاروں کی دوڑ مستقبل کے لئے خطرناک ہے، ڈونلڈ ٹرمپ تاریخ کے پہلے صدر تھے جو خود سے فیصلہ کرتے تھے اور یہ بات اکثریت کو پسند نہ تھی ان پر الزام تھا کہ انہوں نے گوروں کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ نتیجے میں جب2020میں صدر کے چنائو کے لئے ٹرمپ نے حصہ لیا تو وہ ہار گئے بہتوں کا کہنا ہے ووٹنگ کی کائونٹنگ میں گڑ بڑ ہوئی ہے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت بائیڈین کو صدارت کی کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے پرائمری میں بائیڈین ڈیموکریٹک پارٹی میں بزنی سینڈرس کے مقابل تھے اور شروع میں برنی سینڈرس جیت رہے تھے پھر اچانک ایسا ہوا کہ بائیڈین آگے ہوگئے سب کے لئے حیران کن بات تھی اور اسی طرح بائیڈین صدر بن گئے ٹرمپ کے مقابلے میں2024میں کہا نہیں جاسکتا کون بنے گا صدر لیکن ٹرمپ کے لئے راہ ہموار ہوگئی ہے۔ بائیڈین کی ناکام صدارت کے بعد جس میں ان کا گراف بہت نیچے ہے وہ اب اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں انکے پونے دو سال میں کارپوریشنز نے خوب لوٹ مار مچائی ہے۔COVID-19 میں خزانے سے انہیں تجارت میں نقصان کا خمیازہ دیا گیا ہے، آئل کمپنیوں بالخصوصARAMCOنے سعودی عربیہ کو کھربوں ڈالرز کا فائدہ پہنچایا ہے بیرل کی قیمت150ڈالر پہنچا کر سعودی عربیہ نے اس سال تیل کی مد میں اتنا کما لیا ہے جو انکی ضروریات کے لئے5سال تک کافی ہوگا۔روس کا بہانہ بنا کر اور امریکیوں کی ضروریات کو ختم کرکے بائیڈین صاحب نے روس سے یوکرائن کی بے معنی جنگ میں مالی امداد دے کر اسکے روس کے مقابلے میں کھڑا کیا ہے۔منافع خوری ہتھیار بنانے والی کارپوریشنز ہیں اور مہنگائی کا طوفان امریکیوں کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ ڈیموکریٹک آنے والے نومبر میں ہارینگے کہ وہ مہنگائی دوائوں اور آئل پر کنٹرول نہیں کرنا چاہتے نتیجہ میں ہر شے کی قیمت آسمان پر ہے۔ دوئم اب انہوں نے چین سے بھی ناراضگی پیدا کی ہے کہ نینسی پلوسی کو تائیوان بھیجا تھا کہہ سکتے ہیں کسی صورت میں امریکہ کے لئے اچھا نہیں صدر بائیڈین کی سمجھ سے باہر سے شاید!!!۔
٭٭٭٭٭