مسلمانوں کیلئے حرمت رسول ۖ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، اور اسی عقیدے کی بنیاد پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے 30 برس قبل شاتم رسول ،ملعون سلمان رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا تھا، ہمارا مقصد کسی ظلم کی حمایت کرنا نہیں ہے بلکہ مذہب اسلام میں اس اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے ، برطانوی مصنف شاتم رسول ملعون سلمان رشدی پر جمعہ 11 اگست کو امریکا میں چاقو سے حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہو گیا تھا، حملہ حادی نامی مسلم نوجوان کی جانب سے کیا گیا جس کو پولیس کی جانب سے حراست میں لے لیا گیاہے۔اپنے فتوے میں آیت اللہ خمینی نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس کتاب کے مصنف اور ناشرین کو جلد از جلد قتل کر دیں تاکہ پھر کوئی بھی اسلام کی مقدس اقدار کو ٹھیس پہنچانے کی جرآت نہ کرے، آیت اللہ خمینی اس وقت 89 برس کے تھے اور اس فتوے کے بعد وہ محض چار مہینے ہی زندہ رہے۔اپنے فتوے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی شخص سلمان رشدی کی موت کی سزا پر عملدرآمد کرتے ہوئے خود بھی مارا جاتا ہے تو وہ ‘شہید’ ہو گا اور جنت میں جائے گا۔سلمان رشدی کی جان لینے والے کے لیے 2.8 ملین ڈالر کی رقم انعام کا بھی اعلان کیا گیا۔سلمان رشدی کی کتاب ‘سٹینک ورسز’ پبلشر وائکنگ پینگوئن کی طرف سے ستمبر 1988ء میں شائع کی گئی۔اکتوبر 1988ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اس کتاب کی بھارت میں درآمد پر پابندی عائد کر دی، اس امید پر کہ شاید وہ آئندہ انتخابات میں بھارتی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر سکیں گے۔اس کے علاوہ بھی دنیا کے قریب 20 دیگر ممالک نے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی۔جنوری 1989ء میں برطانیہ کے شمالی شہر بریڈفورڈ میں مسلمانوں نے کھلے عام اس کتاب کی کاپیاں نذر آتش کیں۔اس کے قریب ایک ماہ بعد ہزاروں پاکستانیوں نے دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی ‘انفارمیشن سینٹر’ پر حملہ کیا۔ مظاہرین سلمان رشدی کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پانچ مظاہرین مارے گئے۔رشدی نے 1991ء میں بتدریج عوامی زندگی کی طرف واپس آنے کی کوشش شروع کر دی، لیکن ان کے جاپانی مترجم کو اسی برس کے آخر میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے اطالوی مترجم بھی کچھ دنوں کے بعد چاقو حملے کا نشانہ بنے جبکہ ناورے کے پبلشر دو برس بعد گولی کا نشانہ بنے۔ حالانکہ یہ بات کبھی واضح نہیں ہوئی کہ آیا یہ حملے خمینی کے فتوے کی وجہ سے ہوئے تھا یا نہیں۔1993ء میں مسلمان مظاہرین نے وسطی ترک شہر سیواس کے ایک ہوٹل کو نذر آتش کر دیا کیونکہ وہاں عزیز نسیم موجود تھے جو سلمان رشدی کے اس ناول کا ترکی میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ عزیز نسیم تو وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر 37 دیگر افراد مارے گئے۔1998ء میں تاہم ایران کے اصلاحات پسند صدر محمد خاتمی نے برطانیہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ایران اب اس فتوے پر عمل نہیں کرے گا۔ تاہم خمینی کے پس رو آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2005ء میں کہا کہ وہ اب بھی یہی یقین رکھتے ہیں کہ سلمان رشدی نے ایک ‘مرتد’ ہیں اور اسلام کے رو سے ان کا قتل جائز ہے۔ نیویارک میں ملعون سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ کرنے والے ملزم نے صحت جرم سے انکار کیا ہے ، ملعون سلمان رشدی کے بیٹے اور ایجنٹ نے کہا ہے کہ ملعون کو وینٹی لیٹر سے ہٹادیا گیا ہے ، اس کی حالت اب بھی خطرے میں ہیاور صحتیابی میں وقت لگے گا۔ ملعون کے بیٹے ظفر رشدی کا کہنا ہے کہ اس کے والد نے کچھ بات چیت بھی کی ہے۔ قبل ازیں 24 سالہ ہادی مطر کو ریاست نیویارک کی عدالت کے روبرو پیش کردیا گیاجہاں انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا ، دوران سماعت سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کس طرح سلمان رشدی پر تقریباً 10 مرتبہ چاقو سے حملے کیے گئے اور حملے کو منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور سوچی سمجھی کوشش قرار دیاتاہم اس موقع پر ہادی کے لئے مقرر اٹارنی جنرل نیاپنے موکل پر عائد الزامات کو مسترد کردیا، صدر بائیڈن اور وائٹ ہائوس کی جانب سے بھی معلون سلمان رشدی پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ، اب دیکھنا ہے کہ عدالت ملزم کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟
٭٭٭