ایک بات تو کم از کم طے ہوگی کہ پاکستان میں صرف وہی جماعت عوام کے حقوق کی بات کرتی ہے جو اپوزیشن میں ہو، اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے یہ سیاسی خادم عوام کے درد کو جس طرح محسوس کرتے ہیں، جو آنسو کی ندیاں ان کی آنکھوں سے بہتی ہیں اور جو درد ان کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اسے دیکھتے ہوئے کبھی کبھی تو دل کرتا ہے کہ پاکستان میں صرف اپوزیشن ہونی چاہیے، حکومت اور حکمران جماعت کا کہیں بھی نام و نشان نہ ہو۔اگرچہ یہ بڑی غیر سنجیدہ بات ہے کہ حکومت نہ ہو اور صرف اپوزیشن کا وجود ہو، مگر اب کیا کیا جائے غیر سنجیدگی کا عالم جب اتنا بڑھ جائے، تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس طرح کی غیر سنجیدہ باتیں کرنے کو دل کرتا ہے۔یہ غیر سنجیدہ باتیں آج کرنے کو اس لیے بھی من کر رہا ہے کہ دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں، مگر پاکستان میں کل کی ا پوزیشن اور آج کے حکومتی اتحادیوں پر مشتمل جماعتوں نے تیل کی قیمتیں بڑھانے کو ترجیح دی۔ اندازہ کریں کہ کل ہی کی بات ہے یہ عوام کو سابق حکمران جماعت کی جانب سے تیل کی قیمتیں بڑھانے پر کیا کیا حکومتی نااہلی کے فضائل بیان نہیں کرتے تھے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے سے بات اب اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہا، ماضی میں اپنے ہی کی ہوئی باتوں اور بیانات کو کس طرح دُہرایا جائے اور اس کا عوام کے سامنے دفاع کیا جائے، دوسری جانب مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز کی جانب سے یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ وہ قیمتوں میں اضافہ کے خلاف ہیں، اس حرکت پر تو مجھے اپنے کالج کے زمانے کے چند وہ گروپ یاد آ جاتے ہیں جن کے کچھ لوگ مار کٹائی کراتے تھے اور بعد میں اس حرکت کی مذمت کرتے ہوئے مار کھانے والوں کے دل جیتنے کی کوشش کرتے ہوئے راضی نامہ کروانے کی کوشش کرتے تھے۔ایک طرف حکومت اپنے فیصلوں کے ذریعے عوام کی مار کٹائی میں مصروف ہے تو دوسری جانب مریم نواز کے مخالفت کے بیانات مار کھاتے ہوئے اس عوام کی ہمدردی سمیٹ کر ان فیصلوں پر راضی کرنے کی کوششوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ کبھی بھی ان سیاسی جماعتوں کو اپنے ماضی کے بیانات پر شرمندگی کا احساس بھی نہیں ہوتا اور مجھے لگتا ہے کہ شاید ان جماعتوں سے شرمندگی کی توقع رکھنا بھی غیر سنجیدگی کی ایک عمدہ مثال ہوگی۔ کم از کم یہ بات تو طے ہو گئی کہ پاکستان میں عوام کے لیے دُکھی وہی ہوگا جو اپوزیشن میں ہوگا۔
٭٭٭