”میرے ابو پیارے ابو”
”میرے ابو سب سے اچھے ”
اللہ رب العزت نے انسان کو لاکھوں کڑوڑوں نعمتوں سے نوازا ہے۔جس میں سب سے بڑی نعمت ، رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور ایک کلمہ گو کے گھر پیدا ہونا ہے۔”زندگی کبھی تو باپ بن کے دکھا”کندھوں پہ میرے بوجھ جب بڑھ جاتے ہیں۔میرے بابا مجھے شدت سے یاد آتے ہیں۔چاہے کتنا ہی بوڑھا ہو۔ گھر کا سب سے مضبوط سہارا باپ ہی ہوا کرتا ہے۔کائنات میں باپ ہی ایسی شخصیت ہے جو آپکی کامیابی پر دل سی بغیر کسی تصنع کے خوش ہوتا ہے۔اْسکی دعاء عرش الٰہی پر بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچتی ہے۔ماں باپ دنیا کی ہر ٹھوکر برداشت کر سکتے ہیں لیکن اولاد کے ہاتھوں لگے زخم کبھی برداشت نہیں کر پاتے۔جو اپنے ماں باپ کو گھر بدر کرتے ہیں وہ ساری زندگی دربدر رہتے ہیں۔گھر پر باپ کی آواز بہت بڑی نعمت ہوا کرتی ہے۔ جب والد محترم گلی میں داخل ہوتے تو اْنکے کھنگورے اور جوتوں کی آواز کا رعب اور دبدبے کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے،
باپ ایسی کتاب ہے جس کے اوراق تجربات سے تحریر ہوتے ہیں جو زندگی گزارنے کے رھنماء اصول وضع کرتی ہے۔ اس لئے اس کتاب کو کبھی اپنے سے دور نہ ہونے دیں۔ اکثر بچے ہمیشہ بڑا ہوکر باپ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔بیشک ماں کے قدموں تلے جنت ہے لیکن جنت کے دروازے کی چابی باپ ہے۔بہت مقدر والے ہیں وہ جنہوں نے ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کو پایا ہے۔میرے بابا کو رخصت ہوئے آج ایک سال ہو گیا ہے لیکن میں ایسے محسوس کرتا ہوں کہ ایک مدت سے جدا ہوئے ہوں۔ایک مدت سے پکارا نہیں ”ابو ”کہہ کر۔۔۔ایک مدت سے ہوا یہ لفظ رخصت گھر سے۔ جی چاہتا ہے جلا کے پھینک دوں ان ڈگریوں کو جو مجھے ان ہستیوں سے دور لے جاتے ہیں جن کے کاندھوں پر بیٹھ کر میں نے بولنا سیکھا۔ جن کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا۔ جنہوں نے میرے اندر محبت اور پیار کے لفظ کی آشنائی پیدا کی جنھوں نے مجھے رشتوں کی پہچان دی جنھوں نے مجھے اللہ کے دین کے ساتھ جوڑا۔میرے ابو جن سے میرا باپ بیٹے کے علاوہ ،دوستی کا رشتہ تھا۔ مذاق اور شرارتوں کا رشتہ تھا۔ میں پانچ دھائیاں گزرنے کے بعد بھی اپنے ابا کا پیار سے گْل صاحب کہنے کی آواز اور سر پر پھیرے مشفق ہاتھوں کا لمس محسوس کرتا ھوں۔ میں اکثر سوچتا ھوں کہ یہ نعمتیں جو اللہ نے ماں باپ کی شکل میں عطاء کی ہوتی ہیں انکا کوئی نعمل بدل نہیں۔ آپکو دنیا میں ہر چیز مل سکتی ہے۔ ماں باپ کا نعمل بدل نہیں مل سکتا۔کوئی بھی انسان پوری دنیا کے لئے نہیں جیتا بلکہ کچھ خاص لوگوں کے لئے جیتا ہے ، وہ خاص لوگ اْسکی اولاد ہوتے ہیں۔ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اْس نے اپنے ابا جیسا اپنی زندگی میں کوئی شفیق شخص نہیں دیکھا۔ میں اپنے والد محترم کی شفقت انکی محبت اور میرے لئے روزانہ آدھی چھٹی کا انتظار کرنا۔ کیا آج ہم اپنے بچوں کے لئے اتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں۔میں سینٹ انتھونی ہائی سکول پڑھتا تھا۔پہلی کلاس سے دسویں کلاس تک ،ابا جان روزانہ میرے لئے سکول لنچ لیکر آتے تھے۔ چھٹی کے ٹائم مجھے کھلا کر چلے جاتے تھے۔
آج جب میں زندگی کے وہ یادگار ایام دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں میرے ابا اتنا مشکل کام روزانہ کیسے مینج کرتے تھے۔ الحمد للّٰہ آج میرے پانچ بچے ہیں۔ کسی ایک کے سکول میٹنگ ہو تو وقت نکالنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔کیا عظیم ہستیاں ہیں جن کی برکتوں سے میں محروم ہو چکا ہوں۔ خدارا اپنے والدین کی قدر کیجئے یہ کائنات کی بڑی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہیں۔
گھر میں باپ کی آواز بڑی نعمت ہوتی ہے۔جب انسان کو زندگی اور حالات تھکا دیتے ہیں۔اس لمحے ابو جی کی یہ بات حوصلہ اور ہمت بڑھا دیتی ہے کہ میرا بیٹا بہت بہادر ہے۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں اگر تم ستر سال تک کعبہ کا طواف کرکے اسکی نیکیاں اپنے ماں باپ کو ہدیہ کرتے رھو۔تب بھی اْسکے ایک آنسو کے قطرے کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکتے جو تمہاری بدسلوکی کی وجہ سے تمہارے ماں باپ کی آنکھ سے گرے۔
باپ کی موجودگی سورج کی مانند ہے،سورج گرم تو ضرور ہوتا ہے لیکن اگر سورج نہ ہو تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔
زندگی میں یہ خیال ضرور رکھیں کہ باپ کے آنسو کبھی تمہاری دکھ سے نہ گریں۔ورنہ رب تمہیں جنت سے گرا دے گا۔میرے استاد محترم کہا کرتے تھے کہ اپنے باپ کاحکم مانو تا کہ زندگی میں خوشخال رہ سکو۔
اگر رزق میں تنگی محسوس ھو تو ضرور غور کیجئے کہ کہیں ماں باپ کے لئے دعاؤں میں کمی تو نہیں ہوگئی۔باپ ایک مقدس مخافظ ہے جو پورے خاندان کی مفت خفاظت کرتا ہے۔قارئین قدر کیجئے اْن ہاتھوں کی۔ جن ہاتھوں نے ہماری بنیادیں مضبوط کرتے کرتے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں پکڑ لیں۔
انسانی زندگی کا سب سے مشکل کردار باپ ہے اور آپکی زندگی میں مشکل کردار باپ کے علاوہ کوئی نبھا نہیں سکتا۔سیانے کہتے ھیں کہ باپ سخت مزاج ہوتا ہے اسکی سختی برداشت کرنے سے انسان زندگی میں باکمال رہتا ہے اور اللہ رب العزت بلند مقام عطائ فرماتے ہیں۔
اگر ہو گود ماں کی تو فرشتے کچھ نہیں لکھتے۔جو ممتا روٹھ جائے تو کنارے پھر نہیں دکھتے۔
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دکھ۔
سْنا ہے باپ زندہ ہو تو کنارے بھی نہیں چھپتے۔
مجھے کیا معلوم بادشاہ کیسا ہوتا ہے، مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ وہ میرے ابا جیسا ہوتا ہے۔ والدین سر پر ہوں تو اولاد بادشاہ ہوتی ہے۔
ماں کا بہت مقام ہے ، اس مقام اور عظمت کے پیچھے باپ ہوا کرتا ہے۔
یہ کائنات کی وہ ہستیاں ہیں جنکی وجہ سے گھروں میں رحمت اور برکتیں ہوا کرتی ہیں اْنکی موجودگی میں گھر بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
*گھر کی اس بار میں مکمل تلاشی لوں گا۔۔۔۔
غم چھپا کر میرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے۔
جو باپ کی ٹھنڈی چھاؤں میں گزرتے تھے
زندگی کے وہی پل انمول تھے۔۔۔۔۔
اللہ سب کی اولاد پر ماں باپ کا سایہ سلامت رکھے۔
بزرگ فرماتے ھیں کہ اپنے باپ سے اونچی آواز میں بات نہ کرو جب وہ خاموش ہو گئے۔ اْس دن تم اْنکی آواز آواز سننے کوترس جاؤگے۔اللہ بارک سب کے ماں باپ کو سلامت رکھے۔آمین
اللہ رب العزت نے باپ کی عظمت اور ماں کی جو شان قرآن میں بیان کی ھے۔ کوئی قلم اس سے بڑھ کر نہ شان لکھ سکتا ہے اور نہ کوئی زبان وہ فضیلت بیان کرسکتی ہے جو کائنات کے سردار ، نبیوں کے امام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے۔ اللہ ہم سب کو ان عظیم ہستیوں کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
٭٭٭