آیت اللہ العظمی حاج سید روح الہ امام خمینی
آپکا نام سید روح اللہ موسوی خمینی ابن آیت اللہ سید مصطفی موسوی تھا۔آپکی20جمادی الثانی1324ہجری ستمبر1902کو خمین شہر میں پیدا ہوئے۔جب تک میں ایران میں موجود تھا20جمادی الثانی کو خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا ئ اورامام خمینی کا یوم ولادت ایک ساتھ مناتے تھے۔
آپ مرجع تقلید وبنیان گزار انقلاب اسلامی ایران اور اولین رہبر اسلامی جمہوریہ تھے۔سید روح اللہ وسوی خمینی ایک زمانے میں حاجی روح اللہ مشہور تھے پھر امام خمینی کے نام سے مشہور ہوگئے۔چودہویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ مرجع تقلید ہیں۔آپ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی اور رہبر بھی تھے جو1979میں ایران میں وقوع پذیر ہوا۔آپ نے ایران میں ڈھائی ہزار سالہ شاہی نظام کو ختم کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کی بنیاد ڈالی۔آپ کے والد آیت الہ سید مصطفی موسوی ابن علامہ احمد موسوی خمین میں پیدا ہوئے اور40سال کی عمر میں خمین سے عراق جاتے ہوئے شرپسندوں کے حملے میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔امام خمینی کی عمر اس وقت5ماہ تھی آپ نے درد یتیمی کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کیا اور اپنی مادر گرامی ہاجرہ خانم اور پھوپھی کے زیر تربیت ہے۔آپکے دو بیٹے آیت اللہ مصطفیٰ خمینی شہید اور حجتہ الاسلام والمسلمین احمد خمینی مرحوم تھے اور تین بیٹیاں صدیقہ، فریدہ، زہراء امام خمینی نے ابتدائی تعلیم خمین سے حاصل کی،دنیاوی تعلیم کے بعد اپنے بڑے بھائی آیت اللہ پسندیدہ کی شاگردی میں دینی تعلیم شروع کی۔آپ نے مزید دینی تعلیم اراک میں آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی سے حاصل کی جنہوں نے آپ کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا بعد میں شیخ حائری نے حوزہ علیمہ قم قائم کیا ان کے ہمراہ قم تشریف لے گئے۔امام خمینی نے حوزہ علمیہ قم میں اجتہاد کرنے کے بعد فقہ، اصول، فلسفہ، اخلاق اسلامی اور عرفانی دروس مختلف مساجد ومدارس میں پڑھائے۔امام خمینی مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد کے حامی تھے۔آپ کے درس خارج میں کم وبیش1200افراد شریک ہوتے تھے۔کشف الاسرار، تہذیب الاصول، تحریر الوسیلہ، چہل حدیث، مصباح الہدایتہ الی الخلافتہ والولایہ، کتاب البیع(5جلد)،کتاب الطہارہ(4جلد)،ولایت فقہی وغیرہ درجنوں علمی کتابیں تحریر کریں۔ایران پر حاکم نظام مشروط ڈکٹیٹر شب کا نظام تھا۔رضا خان اور رضا شاہ کی کارستانیوں کی وجہ سے مطلق العنان نظام ظلم رائج ہوچکا تھا،حکومت کے پروگرام دین اسلام اور مذہب تشیع سے متصادم تھے۔امام خمینی نے اسی لئے شاہ حکومت کی علنی اور کھلی مخالفت شروع کی۔تمام مراجع کرام اور حوزہ علمیہ قم نے امام خمینی کا علی الاعلان ساتھ دیا۔امام خمینی کو قید کر دیا گیا اور احتجاج پر آزاد کر دیاگیا۔رہائی کے بعد انہوں نے جدوجہد تیز کردی جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کرکے ملک بدر کردیا گیا۔وہ ترکی کے راستہ عراق داخل ہوئے اور13سال تک خارج اصول وفقہ پڑھاتے رہے۔عراق حکومت نے انہیں کویت منتقل کردیا۔جہاں سے فرانس جلاوطن کئے گئے۔مزید دو سال تک بدری کے بعد1979میں واپس فاتح کی حیثیت سے ایران پہنچے۔ایئرپورٹ کے باہر مظاہرین نے آپ کی گاڑی اٹھالی تھی۔ایران پہنچے کے بعد انہوں نے نظام ولایت فقہی قائم کیا۔عرصہ دراز تک صدام کی طرف سے جنگ مسلط کی گئی مگر بالآخر وہی کامیاب ہوئے اور صدام قصہ پارینا بن گیا۔امام خمینی نے ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کا عنوان دیا اور اعلان کیا کہ دنیا کے تمام مسلمان لوگوں کے قانونی حقوق کی خاطر جلسے جلوس منعقد کریں۔اس دن کے بعد ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو ایران اور دوسرے مختلف ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے۔امام راحل فرماتے تھے اگر ہر مسلمان ایک ڈول پانی اسرائیل کی طرف بہا دے تو اسرائیل اس میں غرق ہوجائے گا۔1988مین سلمان رشدی ملعون نے آیات شیطانی کے نام سے کتاب نشر کی اکثر مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق اس کتاب میں پغیمبر اسلام(ص)کی توہین کی گئی تھی۔امام خمینی نے اس کتاب کے مولف کو پیغمبر اسلام(ص)کی توہین کرنے کی وجہ سے سزائے موت کا حکم دیا۔کچھ عرصے کے بعد کسی نے کہا کہ اگر اس کتاب کا مولف توبہ کرے تو اس کے قتل کا حکم ختم کر دیا جائے گا۔لیکن امام خمینی نے اس جواب میں کہا کہ سلمان رشدی حتی اگر توبہ بھی کر لے اور اپنے زمانے کے پرہیز گاروں میں سے بھی ہوجائے تب بھی اس کا حکم تبدیل نہیں ہوگا۔آپ نے ربیع الاول میں ہفتہ وحدت منا کراتحاد بین المسلمین کا بہترین درس دیا۔آپ نے پوری عمر بہت سادگی اور زاہدانہ زندگی گزاری۔مرجعیت کے دور میں جب آپ نجف میں سکونت پذیر تھے تو کرایہ کے ایک معمولی مکان میں رہتے تھے۔اور اسی طرح اپنی عمر کے آخری دس سال جب آپ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیڈر تھے تب بھی آپ نے تہران کے ایک محلے جماران میں ایک کرائے کے بہت ہی معمولی دو کمروں کے گھر میں زندگی بسر کی۔راقم الحروف نے حسینیہ جماران میں بارہا امام راحل کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔مرحوم امام نے زندگی کے آخری ایام میں آخری تحریروں میں مرا اجازہ بھی لکھا تھا۔وہ تحریر میرے پاس موجود ہے۔جس سے میں باعث برکت سمجھتا ہوں۔حسینہ جماران میں نجف اور قم کی طرح وہ مجالس امام حسین بڑی عقیدت سے قائم کرتے تھے۔قم اور نجف کے ان کے طلباء بتاتے ہیں کہ قیام کے دوران ایک دن بھی انہوں نے زیارت معصومہ قم یا زیارت امیر المئومنین کا ناغہ نہیں کیا۔جون1989ء کو معدے کے سرطان کی وجہ سے اپنے عاشقوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔تمام مسلمان اور خاص طور پر شیعہ، آپ کو والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔آپ کے جنازے میں ایک کروڑ افراد نے شرکت کی۔جو جنازوں کی دنیا میں سب سے بڑا ریکارڈ ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام راحل کے طریقے پے چلنے توفیق عطاء فرمائے۔
٭٭٭٭