نئی دہلی(پاکستان نیوز) فنانشل ٹائمز نے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ بھارت میں سرکاری طور پر تو کورونا سے ساڑھے 7 ہزار اموات ہوئی ہیں مگر مختلف حوالوں سے اسے دنیا میں بدترین نقصان کا سامنا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے 24 مارچ کو یہ کہتے ہوئے بھارت میں دنیا کا سخت ترین لاک ڈاﺅن نافذ کردیا تھا کہ ہم وائرس کے خلاف ”فاتح“ بن کر ابھریں گے جبکہ اس وقت ملک میں کورونا کے مریض 500 سے بھی کم تھے۔ مئی کے آخر میں جب کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا تھا تو مودی نے یہ کہتے ہوئے لاک ڈاﺅن کھولنا شروع کردیا کہ اب ہمیں طویل عرصے تک اس وائرس کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے تیاری انتہائی کم تھی۔بھارتی وزیراعظم کے ”محافظ“ اب کہہ رہے ہیں کہ اس بات کا کریڈٹ مودی کو جاتا ہے کہ اس نے برازیل کے جیئر بولسونارو کی طرح کورونا کو ”معمولی زکام“ قرار نہیں دیا اور وبا کو سنجیدگی سے لیا اور انسانی جان کے تحفظ کو سب سے پہلی ترجیح رکھا مگر لاک ڈاﺅن کی حکمت کو بری طرح مس ہینڈل کیا گیا، کاروباروں، دکانوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو اچانک بند کردیا گیا جس سے لاکھوں لوگ روز گار سے محروم ہوگئے ، بہت سے مختلف علاقوں میں پھنس گئے اور اپنے گاﺅں واپس پہنچنے کے لئے سینکڑوں کلومیٹر سفر پیدل طے کرتے ہوئے نظر آئے۔بھارت کے لئے وبا کا معاشی نقصان بہت زیادہ رہا، ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 40لاکھ افراد روزگار سے محروم ہوگئے ، مجموعی قومی پیداوار میں اپریل سے جون کے دوران 45 فیصد کمی ہوئی، ملک 40سال میں پہلی مرتبہ کساد بازاری کی زد میں ہے۔لاک ڈاﺅن نے ملک میں کورونا کا پھیلاﺅ کم تو کیا مگر اسے مکمل طور پر روک نہیں سکا،لاک ڈاﺅن امیر ممالک میں بھی مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ ایسے ملک میں کیا جائے جہاں کروڑوں لوگ کچی بستیوں میں رہتے ہیں او ر ایک ہی نل سے پانی لیتے ہیں اور ایک ہی غسل خانہ استعمال کرتے ہیں۔یورپ کے امیر ممالک میں لاک ڈاﺅن کے بعد وائرس کا پھیلاﺅ رک گیا جبکہ بھارت میں یہ اب بھی پھیل رہا ہے اور روزانہ 10 ہزار تک مریض سامنے آرہے ہیں جو امریکہ اور برازیل کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔امریکی طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں وبا کا عروج جولائی کے آخر سے پہلے نہیں آئے گا، لاک ڈاﺅن سے لوگ اس طرح باہر آرہے ہیں کہ وائرس لاک ڈاﺅن میں جانے سے پہلے کی نسبت اب زیادہ رفتار سے پھیل رہا ہے۔مختلف جگہوں پر کام کرنے والے اب واپس اپنے دیہات میں جائیں گے تو وہ وائرس کو زیادہ تیزی سے دوسرے لوگوں میں منتقل کریں گے۔بھارت کی معاشی حالت اور لاک ڈاﺅن کے اثرات کو دیکھتے ہوئے اب مودی کے پاس لوگوں کو کام کرنے دینے کے سوا آپشن نہیں۔بھارت اب سویڈن کی لائٹ ٹارچ پاپندیوں کی جانب بڑھ رہا ہے جبکہ اس کی آبادی سویڈن کی آبادی سے 140 گنا زیادہ ہے ، شہر بے ہنگم ہیں اور صحت کا نظام ضروریات کی نسبت بہت کمزور ہے۔حکومت نے پچھلے مہینے 266 ارب روپے کا پیکیج دیا جو جی ڈی پی کے 10 فیصد کے برابر بنتا ہے مگر غریبوں کے لئے براہ راست امداد محدود تھی جبکہ مغربی ممالک نے پیکیج میں بینکوں کو ترغیب دی کہ وہ کاروباروں کو مزید قرضہ دیں۔ماہرین معاشیات کا اندازہ ہے کہ حقیقت میں پیکیج جی ڈی پی کے 1.5فیصد کے برابر تھا۔طبی ماہرین رائے دے رہے ہیں کہ وائرس کو روکنے کے لئے نئے اقدامات کئے جائیں،جہاں وبا کا زیادہ زور ہے ، وہاں پابندیاں عائد کی جائیں اور ٹیسٹنگ کی جائے ، ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دی جائے ، ان اور ان جیسے دیگر اقدامات کے بغیر بھارت کی حالت بد سے بدتر ہوجائے گی۔ دوسری جانب افواہیں ہیں کہ حکام اعدادوشمار میں ہیر پھیر کر رہے ہیں۔