ہوائی جہاز میں کارگو کے طور پر لدا ہوا جسم!!!

0
20

آج آپ فرسٹ کلاس پرواز کرتے ہیں، کل آپ کو سامان کے طور پر لے جایا جاتا ہے، ہمیشہ عاجز رہو، ہمیشہ شکر گزار رہو، لوگوں سے ہمیشہ پیار اور حسن سلوک سے پیش آئو،کبھی کبھار میتوں کو سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ ذرا محسوس کرنے کی کوشش کیجیے کہ میت کے لیے سرد خانے کے منفی درجہ حرارت میں کئی دنوں کے لیے لیٹنا کیسا عذاب ہوتا ہو گا؟ یہ عذاب ان کے پیارے ہی انہیں دیتے ہیں۔ ایک دوسرا اذیت ناک اور شرمناک معاملہ میت کو یورپی ممالک سے پاکستان لانا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسی میتوں کی سب سے پہلے embalment کی جاتی ہے۔ جسم سے خون اور باقی مادے نکالنے، اور ان کے جگہ انفیکشن وغیرہ کو روکنے والے کیمیکل داخل کرنے کو embalment کہتے ہیں۔ اس عمل کے لیے سب سے پہلے میت کو برہنہ کیا جاتا ہے۔ پھر گلے کی سائیڈ پر کٹ لگا کر وہاں سے گزرتی ایک بڑی شریان کو ہلکا سا باہر کھینچا جاتا ہے (یہ شریان نبض کی طرح محسوس کی جا سکتی ہے)۔ اس شریان کو ہلکا سا کاٹ کر اس میں کینولا داخل کیا جاتا ہے اور شریان کو باندھ دیا جاتا ہے تاکہ عمل کے دوران کینولا باہر نہ نکلے۔ یہ کینولا دوسری جانب سے ایک مشین سے لگا ہوتا ہے۔ وہ مشین ایک مائع جسم میں دھکیلتی ہے جو سارے جسم کی رگوں میں پھیل جاتا ہے۔ خون کو جسم سے باہر نکالنے کے لیے ٹانگ کے جوڑ کے قریب ایک اور بڑی شریان کو کٹ لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پیٹ اور سینے میں کٹ لگا کر نرم اعضا پنکچر کیے جاتے ہیں اور کیمیکل بھر کر پیٹ اور سینے کو سِیل کر دیا جاتا ہے۔ منہ بند کرنے کے لیے کبھی کوئی گوند نما چیز لگائی جاتی ہے اور کبھی سلائی کر دی جاتی ہے۔ اس عمل کو میں نے اس لیے وضاحت سے لکھا ہے تاکہ سب پڑھنے والے اپنی جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر میت کی حد سے بڑھی ہوئی بیحرمتی اور تکلیف پر تھوڑی دیر غور کر لیں۔ کیا آخری دیدار اور وطن کی مٹی کی یہ قیمت درست ہے؟ کیا یہ بہت مہنگا سودا نہیں؟ آخر ہم اپنے پیاروں کو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں؟ صرف اس لیے کہ فلاں آخری بار چہرہ دیکھ لے؟ یا اس لیے کہ لوگ واہ واہ کریں کہ بہت بڑا جنازہ تھا؟ یا اس لیے کہ ہماری بے عزتی نہ ہو جائے کہ جنازے میں بہت تھوڑے لوگ تھے؟
بات بہت سادہ اور سیدھی ہے جو شخص دنیا سے چلا جائے اس کے جنازے میں صرف اتنی ہی دیر ہونی چاہیے جتنی قبر کھودنے اور کفن دفن کا انتظام کرنے میں ہوتی ہے۔ اللہ کا یہی حکم ہے اگر کوئی پیارا دور ہے تو وہ صبر کرے اور میت کے لیے دعا اور صدقہ کرے۔ صرف چہرہ دیکھنے کے لیے میت کو تکلیف نہ دے جس کی موت جہاں لکھی ہے وہیں آنی ہے۔ اگر پردیس میں موت آ جائے تو وہیں قبر بنانا بہتر ہے۔ اگر کسی کو بڑا مجمع اکٹھا کرنے کا خبط ہے تو یہ ذہن میں رہے کہ بڑے جنازے صرف دنیا ہی میں گردن اکڑانے کا باعث ہو سکتے ہیں، اللہ کے ہاں ترازو مختلف ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا انجام بخیر کرے اور سب کو موت کے بعد کی بے حرمتی اور اذیت سے محفوظ رکھے، امین !
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here