پاکستانی عدالتی جوڈیشل ازم!!!

0
81
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان میں عدالتی جوڈیشل ازم منفی اور مثبت پایا جاتا ہے جس کی آئین اور قانون میں کوئی اجازت نہیں ہے کہ کوئی جج قانون کے مدمقابل اپنی رائے تجویز، مشورہ، مفاہمت یا مصالحت اختیار کر پائے جیسا کہ پاکستان میں عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں قانون اور آئین کو پس پشت ڈال کر عدالتی فیصلے کیے جارہے ہیں جس سے پاکستانی ججوں کی قانون اور آئین کی دنیا میں کوئی عزت و وقار نہیں بچا ہے وہ عدلیہ جس کے لئے ایک غیر قانونی اور غیر آئینی حکمران جنرل مشرف کے ہاتھوں برطرفی سے دنیا بھر میں احتجاجی تحریک چلی تھی جس کی امریکن بار انٹرنیشنل بار اور دنیا بھر کے جمہوری ملکوں کے وکلاء برداری نے حمایت کی تھی وہ آج زیرو ہوچکی ہے۔کہ جب سپریم کورٹ کا پانچ کا ٹولہ آئین کے خلاف عدم اعتماد تحریک میں پارلیمنٹرین کے ضمیر کے خلاف فیصلہ دے کر آج کے بعد مخصوص پارٹی کا پارلیمنٹرین پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا۔تو وہ دوبارہ شمار نہیں ہوگا جو آئین کے ساتھ انسانی شہری اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے مگر سپریم کورٹ نے آئین کے خلاف فیصلہ دے کر آئین کو پامال کر دیا ہے جس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی ہے۔پچھلے ہفتے سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک اور غیر قانونی اور غیر آئینی طریقہ اختیار کرتے ہوئے پوری عدلیہ ایک جرگہ یا پنچائیت بنا دیا جس میں عدلیہ کے چیف جسٹس عمر بندیال یہ کہتے پائے گئے کہ فلاں فلاں سیاستدانوں، رہنمائوں اور کارکنوں سے پوچھا جائے کہ ہم فیصلے میں کیا کریں۔پنجاب کا منتخب وزیراعلیٰ حمزہ شریف آپ لوگوں کو قبول ہے یا نہیں۔اگر وزیراعلیٰ کو ہٹایا جائے تو گورنر قائم مقام وزیراعلیٰ تسلیم کیا جاسکتا ہے۔بابر اعوان جائو اپنے قائد عمران خان سے پوچھا جائے کے ہم کیا فیصلہ دیں یعنی کے چیف جسٹس نے نئے جانے کتنے نتھوں اور فتوئوں کو اپنے مشوروں، تجویزوں اور مصلحتوں میں بلاتے رہے جس کے بعد عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے خلاف فیصلہ دیا کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب یکم جولائی کی بجائے22جولائی کو منعقد کیا جائے تاکہ شاید عمران خان کسی حادثاتی اور جادوگری کی بنا پر منحرف اراکین کی نشستوں پر کامیاب ہوجائے تاکہ 22جولائی کو عمران خان کا کوئی عثمان بزدار وزیراعلیٰ بن جائے حالانکہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئینی بحران کو ختم کرنے کے لیے دیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پنجاب اسمبلی کے25اراکین پارٹی پالیسی کی وجہ سے ڈی سیٹ ہوگئے تھے جس پر ان نشستوں پر17جولائی کو دوبارہ انتخابات منعقد ہو رہے ہیں جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے5مخصوص نشستوں کا فیصلہ غلط کیا ہے کہ بنا20پارلیمنٹرین جن کے ووٹوں کی تعداد چالیس لاکھ سے زیادہ بنتی ہے ان کو پس پشت ڈال کر پانچ نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں جبکہ خالی خصوصی نشستوں کا فیصلہ بیس نشستوں کے بعد ہوگا مگر لاہور ہائیکورٹ نے بھی قانون کی پرواہ کیے بغیر فیصلہ جھاڑ دیا۔جس سے قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئیں تاہم عدالتی جوڈیشل ازم اپنے انتہا کو پہنچ چکا ہے جس میں پاکستان کا آئین اور قانون پامال ہو رہا ہے۔جس سے عدلیہ میں شدید بے چینی پیدا ہو رہی ہے جس کا آئندہ کے چیف جسٹس فائز قاضی عیٰسی کی شکل میں خطوں اور بیانوں میں اختیار ہو رہا ہے کہ اب وہ وقت آنے والا ہے کہ جب عدلیہ کی توقیر پاش پاش ہوجائے گی۔جس میں مواقع برطرف جیسا شخص بطور قانون کے طالبعلم جس نے امریکہ میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک کی بنیاد رکھی تھی وہ عدلیہ کی ہمیشہ جائز وناجائز حمایت کرتا چلا آرہا تھا وہ آج موجودہ عدلیہ سے نالاں ہوچکا ہے۔جس میں ہم جیتے سینکڑوں وکلاء حضرات پاکستان میں صرف اور صرف قانون اور آئین کی بالادستی اور بالاتری چاہتے ہیں جو آج مایوسی کا عالم بن چکا ہے کے عدلیہ آئین اور قانون کی بجائے مصلحتوں اور مفاہمتوں پر فیصلے کر رہی ہے یہ جانتے ہوئے ایک قاتل کو تب تک سزا نہیں دی سکتی ہے۔ جب تک اس کیخلاف شہادتیں اور گواہیاں نہ مل پائے چاہے جج کو علم ہو کہ یہ شخص واقعی ہی قاتل ہے بہرحال مشوروں تجویزوں اور مفروقوں پر عدالتی فیصلوں کا دنیابھر میں مذاق اڑا جارہا ہے جس میں عدالتی نظام چوں چوں کا مربہ بن چکا ہے جس کو دیکھا دیکھی پوری عدالتی نظام غیر جانبدار نہیں رہے گا جس کا فوری خاتمے کرنا ہوگا جس کے لیے پاکستان کے وکلاء برداری کی ایکشن لینا ہوگا جن کی ذمہ داری میں شامل ہے۔کے وہ اور بینچ کی حفاظت کریں تاکہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here