کیا وزیراعظم عمران خان جارہے ہیں؟

0
111
حیدر علی
حیدر علی

آج صبح صبح میری بھانجی شمیمہ کی کراچی سے کال آگئی،آواز اُس کی روندھی روندھی سی معلوم ہورہی تھی، میں بھی کچھ گھبرا سا گیا، اُس نے اچانک مجھ سے پوچھ لیا کہ کیا عمران خان جارہے ہیں؟ سوال اُس کا کوئی انوکھا نہ تھا ، کیونکہ اِن دنوں پاکستانیوں کے حلقہ میں موضوع بحث یہی ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان اپنے مسند اقتدار سے رخصت ہورہے ہیں؟ بہرکیف میں اپنی سولہ سالہ بھانجی کو جو پاک فضائیہ میں پائلٹ بننے کا عزم کئے ہوے ہے تسلی دیتے ہوے کہا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ، سیاسی طوفان تو ہمیشہ ہی پاکستان میں بپا ہوتا ہے ، اور پھر سرد پڑ جاتا ہے لیکن وہ جذبات میں چیخ پڑی اور کہا کہ آخر کیوں؟ کیا عمران خان کے جانے سے پاکستان کے غریب عوام کی قسمت راتوں رات بدل جائیگی ؟ کیا جو افراد بے روزگار ہیں اُنہیں ملازمت مل جائیگی؟ آخر حزب اختلاف والے ہر ناکامیابی کا ذمہ دار عمران خان کو کیوں ٹہرا رہے ہیں؟ اِس سے قبل تو دوسروں کی بھی حکومتیں تھیں، اُنہوں نے کیوں انڈسٹری نہیں لگایا ، پاکستان کی زراعت کیوں نہیں فروغ دیا تاکہ پاکستان کو غذائی اجناس درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑے؟ عمران خان کے دور میں تو ہیلتھ کارڈ، راشن کارڈ ، غریبوں کیلئے مکان کے پروجیکٹس پر تو کام ہورہے تھے، عمران خان کے جانے کا مطلب یہ کہ اِن سارے پروجیکٹس پر پانی پھر جائیگا، آخر یہاں ہو کیا رہا ہے، آپ نہیں جانتے . قومی اسمبلی پر دہشت گرد حملے کر رہے ہیں، دہشت گردوں اور بدعنوان سیاستدانوں میں گٹھ جوڑ ہوگئی ہے اور پھر ابھی تو عمران خان کی پانچ سال کی معیاد بھی ختم نہیں ہوئی ہے،بھانجی کی باتیں سن کر میرا دماغ ٹھنڈا ہو کر رہ گیا، میں نے اُسے صرف یہ کہا کہ پاکستان کی عوام یہ سوچتی ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک غلط ہے تو وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے بجائے اُس کے خلاف تحریک چلائیں۔یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ اچانک جو گہما گہمی پاکستان اور اسٹریلیا کے مابین کرکٹ کے 3ٹیسٹ میچز فی میچ 5 دِن اور پھر 3 ون ڈے انٹرنیشنل میچ کے پاکستان میں منعقد ہونے کی وجہ کر پیدا ہوگئی تھی اب سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے سیاہ بادل اُس پر چھاگئے ہیں جب کوئی بیچارا پاکستانی کسی سے میچ کے اسکور دریافت کرتا ہے تو اُسے یہ جواب ملتا ہے کہ ابھی عدم اعتماد کے 100 رنز اور بھی لینے ہیں،ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں-ابھی عدم اعتماد کے امتحان اور بھی ہیں. پوچھنے والا شخص کہتا ہے کہ ” ارے یار میں نے کرکٹ کا اسکور پوچھا ہے…. کرکٹ کا. ” جواب یہ ملتا ہے کہ اگر کرکٹ کا اسکور جاننا چاہتے ہو تو جاکر میچ دیکھو ، کیوں مفت کے فین بننا چاہتے ہو؟
جس کسی نے بھی عدم اعتماد کے ووٹ کا شوشہ چھوڑا ہے انتہائی کاہل اور بد ذوق شخص معلوم ہوتا ہے، شاید اُسے کرکٹ کے کھیل سے الرجک ہے،وہ جب صبح اٹھتا ہے تو اور بھی بہت ساری باتیں اُس کے دماغ میں سوجھتی ہیں ماسوائے کرکٹ کے. وہ سوچتا ہے کہ کیوں نہ آج تیتر بٹیر پکڑا جائے تاکہ بعد میں وہ اُنکا بار بی کیو بنا کر کھاسکے، وہ سوچتا ہے کہ کیوں نہ فارم میں جاکر پھلوں کی گو شماری کی جائے،کسی نے اُس کے پھلوں کو اُڑا تو نہیں دیا، سنگترے کو کرکٹ کے بولز بناکر کھیلا تو نہیں جارہا ہے پھر وہ سوچتا ہے کہ اُس کے گردو نواح میں اِن دنوں کرکٹ کا بڑا شور شرابا ہے جس لڑکے کو دیکھوہاتھ میں بلّا لے کر گھومتا نظر آتا ہے، اِس سے بہتر ہوتا کہ وہ صبح اٹھ کر ڈنڈ پیل لیتے یا نہیں تو وزن اٹھانے کی پریکٹس کرتے تو سارے معاشرے کیلئے سود مند ثابت ہوتا لیکن اسپورٹس کے مداح مقابلے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب چین کے صدر شی جِن پنگ کو یہ بھنک ملی کہ رشیا یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے تو وہ دوڑے دوڑے ماسکو پہنچ گئے اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے یہ گذارش کی کہ مجوزہ حملے کوفی الحال موخر کیا جائے جب تک کہ اُن کے ملک میں ہونے والا ونٹر اولمپک اپنے اختتام کو نہیں پہنچ جاتا، ولا دیمیر پیوٹن نے جواب دیا کہ اِس شرط پر وہ یوکرین کے حملے کو روک سکتے ہیں ، اگر اُن کے ملک کو مزید پانچ گولڈ میڈل ملنے کی ضمانت دی جائے. چین کے صدر شی جِن پنگ نے شرط قبول کرلی اور اپنے ملک کے اولمپک کے انچارج کو یہ اشارہ دے دیا کہ پانچ جعلی مقابلے کروائے جائیں جن میں روس کا کوئی حریف ہی نہ ہو. اولمپک کمیٹی اِس تماشہ کو دیکھتے ہی رہ گئی لیکن امریکا کو واضح طور پر یہ پتا چل گیا کہ یوکرین پر روس کی جانب سے حملہ ہونے والا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں سے ایسی گذارش نہیں کی کہ وہ حضرات اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو اُس وقت تک تاویل میں رکھیں جب تک کہ پاکستان بمقابلہ اسٹریلیا کے کرکٹ میچز کا مقابلہ ختم نہ ہوجائے کیونکہ اُنہیں پتا تھا کہ ہر رہنما ایسا ایسا مطالبہ پیش کرے گا جسے قبول کرنا اُن کے بس میں نہ ہوگا. کسی کا مطالبہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر سے 50 میل کے فاصلے پر جو نہر بہتی ہے ، اُس نہر کو اُس کے گھر کے قریب سے گزار جائے تاکہ اُس کے پانی سے وہ اپنے کھیتوں کو آبیار کرسکے.اور کسی کا مطالبہ یہ ہوگا کہ پی آئی اے کے مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر اُس کے بیٹے کو لگا دیا
جائے کیونکہ اُسے نیویارک سٹی میں ٹیکسی چلانے کا پانچ سال کا تجربہ ہے، میں ایک ایسے رہنما کو ضرور
جانتا ہوں جن کا مطالبہ یہ ہوگا کہ کراچی میں اُنہیں 10 کروڑ روپے کی ایک کوٹھی دی جائے لیکن بیشتر رہنما 5 کروڑ روپے کے سوٹ کیس لینے کو ہی ترجیح دینگے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here