فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!
محترم قارئین! اہل اسلام کو آپس میں محبت، پیار اور الفت کی اشد ضرورت ہے۔ دوستوں سے محبت کرنی چاہئے اور ان کے لئے مرکز محبت بننا چاہئے۔ وہ شخص انتہائی خوش نصیب ہے جس کو اسکے دوست عزیز رکھتے ہیں اور وہ دوست احباب کو عزیزرکھتا ہو اور یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ اور اس کے رسولۖ کی رضا وخوشنودی کیلئے کی جانے والی دوستی دنیا اور آخرت دونوں میں نفع بخش ہے۔ جبکہ حرص و لالچ کی بنا پر کی جانے والی دوستی دنیا میں ہی ختم ہوجاتی ہے آخرت میں کیا نفع دے گی؟ اور وہ انسان انتہائی محروم ہے جس سے لوگ بے زار رہتے ہوں۔ اور وہ لوگوں سے دور بھاگتا ہو۔ مفلس وہ نہیں ہے جس کے پاس دولت نہ ہو بلکہ حقیقت میں سب سے بڑا مفلس وہ شخص ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔ دوست کی زندگی زینت، سفر حیات کا سہارا اور خدا کا انعام ہے، نبی اکرمۖ کا ارشاد گرامی قدر ہے۔ دو مئومن سراپا الفت ومحبت ہے۔ اور اس آدمی میں سرے سے کوئی خیر وخولی نہیں ہے جو نہ تو دوسروں سے محبت کرے اور نہ دوسرے ہی اس سے محبت کریں۔(شکوٰة شریف باب الشفقت) قرآن پاک میں ہے: ترجمہ: مئومن مرد اور مئومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور معاون ہیں۔(سورة توبہ پارہ نمبر10) نبیۖ اپنے ساتھیوں سے بہت محبت فرماتے تھے اور ہر ایک یہ محسوس کرتا کہ نبی اکرمۖ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں۔ حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیۖ اس توجہ اور خلوص کے ساتھ مجھ سے گفتگو فرماتے اور اتنا خیال رکھتے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ شاید میں اپنی قوم کا سب سے بہتر آدمی ہوں۔ اور ایک دن میں نبی پاکۖ سے پوچھ بیٹھا کہ یارسول اللہ! میں افضل ہوں یا ابوبکر؟ آپۖ نے ارشاد فرمایا: ابوبکر افضل ہیں۔ پھر میں نے پوچھا: میں افضل ہوں یا عمر؟ فرمایا: عمر پھر میں نے عرض کیا کہ: میں افضل ہوں یاعثمان؟ فرمایا: عثمان، پھر میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ حقیقت معلوم کی اور آپ نے صاف صاف بات کہہ دی۔ تب تو مجھے اپنی اس جسارت پر بڑی ہی شرم آئی۔ اور میں دل میں خیال کرنے لگا کہ بھلا مجھے ایسی بات پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔ ترمذی شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ نبی پاکۖ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے آنے والی مصیبتوں کو برداشت کرتا ہے وہ کہیں بہتر ہے اس شخص سے جو لوگوں سے الگ تھلک رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں سے برداشتہ خاطر ہوتا ہے۔ نبی پاکۖ کا مزید فرمانا ہے کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لئے ہر آدمی کو غور کر لینا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔(مسند احمد ومشکوٰة شریف)
دوست کے دین پر ہونے معنیٰ یہ ہیں کہ جب وہ دوست کی محبت میں بیٹھے گا تو وہی جذبات وخیالات اور وہی ذوق ورحجان، افکارو خیالات اس میں بھی پیدا ہوں گے جو دوست میں ہیں۔ اور پسند وناپسند کا وہی معیار اس کا بھی ہوگا جو اس کے دوست کا ہے اس لئے آدمی کو دوست کے انتخاب میں انتہائی غوروفکر سے کام لینا چاہئے۔ اور قلبی لگائو اسی سے بڑھانا چاہئے جس کا ذوق ورجحان، افکارو خیالات اور دوڑ دھوپ دین وایمان کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ نبی کریمۖ نے تاکید فرمائی کہ”مئومن ہی سے رشتہ محبت استوار کرو۔ اور تمہارے دستر خوان پر پرہیز گار ہی کھانا کھائے” ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا پینا قلبی تعلق اور محبت کا فکری محرک ہے۔ اور یہ تعلق ومحبت اسی مئومن سے ہونا چاہئے جو متقی اور پرہیز گار ہو۔ خدا سے غافل، غیر ذمہ دار، بے عمل اور بداخلاق لوگوں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے۔ بنی اکرمۖ نے اچھے اور برے دوست سے تعلق کی کیفیت کو ایک بلیغ تمثیل میں یوں بیان فرمایا ہے:”اچھے اور برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے لوہار کی طرح ہے۔ مشک بیچنے والے کی صحبت سے تم کو کچھ فائدہ ضرور پہنچے گا یا مشک خریدو گے یا مشک کی خوشبو پائو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی تمہارا گھر یا کپڑے جلائے گی یا تمہارے دفاع میں اس کی بدبو پنچے گی۔(بخاری ومسلم) اور ابودائود شریف میں اس طرح ہے۔ نیک دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے کی دُکان، کہ اور کچھ فائدہ نہ بھی ہو تو خوشبو تو ضرور آئے گی۔ اور براو دست ایسا ہے جیسے بھٹی سے آگ نہ بھی لگے تب بھی دھوئیں سے کپڑے تو ضرور کالے ہوجائیں گے۔ بس محبت اسی سے ہو جو نبی پاکۖ اور آپ علیہ السلام کے غلاموں سے محبت کرے اور کروائے۔ جیسے درو حاضر ہیں حضوراعلیٰ حضرت، حضور محدث اعظم پاکستان اور حضور شمس المشائخ رضی اللہ عنھم کے افکار عظیمہ کے امین اور قاسم قائد ملت اسلامیہ صاحبزادہ پیر قاضی محمد فیض رسول حیدر رطوی زید شرفہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان ہیں کہ ان سے محبت اور دوستی ایک خدا کی شناس اور حضور نبی کریمۖ کی محبت کی آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭